کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

82

حزب اللہ قمبرانی اور حسان قمبرانی کے گمشدگی کے حوالے سے کل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کمپئین چلائی جائے گی – ماما قدیر بلوچ

بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں احتجاج جاری رہا، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کے احتجاج کو 4068 دن مکمل ہوگئے۔

بی اسی او کے شوکت بلوچ، کامریڈ اسرار بلوچ، این ڈی پی کے ثناء بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ایک عرصہ گزار کر بہت سی تکالیف دیکھیں لیکن فرزندوں کی بازیابی کی پرامن جدوجہد اپنی اندر ایسی توانائی رکھتی ہے کہ تکالیف کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی بلوچ ہے وی بی ایم پی اس کے لیے آواز اٹھائے گا، آپ کو اس چیز کا قطعی خوف نہ رہے کہ شہادتوں سے قوم ختم ہوگا البتہ بلوچ جس دن سر جھائے گا وہ ختم ہوگا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پرامن جدوجہد جاری رہے گا، جدوجہد کسی کا محتاج نہیں، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کو اپنی ذاتی سیاسی بالیدگی اس نہج پر کرنا چاہیے۔ آج اس میدان میں ہماری بہنیں، مائیں قربانی دے رہے ہیں وہ شانہ بشانہ اور برابری کی بنیاد پر جدوجہد کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج پورے بلوچتان میں معصوم انسانوں کا قتل عام کرکے قبضہ گیریت کی جس خواب کو تکمیل کی کوشش کی جارہی ہے وہ پوری دنیا کے امن اور بقاء کے لیے انتہائی خطرناک عمل ہے۔

دریں اثناء ماما قدیر بلوچ نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ 14 ستمبر کو حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کے جبری گمشدگی کو سات مہینے مکمل ہونے پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پر بروز سوموار رات آٹھ بجے سے #SaveQambraniBrothers کے ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئین چلائی جائے گی۔

انہوں نے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے اس کمپئین میں حصہ لینے کی اپیل کی ہے۔

خیال رہے کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی سے 14 فروری 2020 کو حزب اللہ قمبرانی اور حسان قمبرانی کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

حسان قمبرانی کی بہن حسیبہ قمبرانی نے بھائی اور کزن کے جبری گمشدگی کو پانچ مہینے مکمل ہونے پر کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی تھی جہاں ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالتیں انصاف فراہم کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں تو میرے خاندان کو ابھی تک انصاف کیوں نہیں ملا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم اس ریاست کے شہری نہیں اگر ہم ریاست کے شہری ہیں تو ہماری درد و فریاد کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے، عدالتوں سے لوگ انصاف کی امید رکھتے ہیں لیکن ہمیں انصاف فراہم کرنے میں عدلیہ مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔