وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام کوئٹہ میں سمینار

150

لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرکے صفائی کا موقع دیا جائے

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کی اذیت کے نام سے کوئٹہ پریس کلب میں سمینار کا انعقاد کیا گیا۔

سمینار میں لاپتہ افراد کے لواحقین، سیاسی و طلباء تنظیموں کے رہنماؤں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔

سیمینار سے لاپتہ راشد حسین کی والدہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ راشد حسین کو جس جرم کے پاداش میں اغوا کیا ہے اسکے ثبوت پیش کرکے عدالتوں کے ذریعے اسے جس طرح کا سزا دیا جائے گا ہمیں قبول ہے لیکن اس طرح بغیر کسی جرم کے سالوں لاپتہ کرنا ہمیں قبول نہیں ہے۔

یاد رہے کہ راشد حسین انسانی حقوق کے متحرک کارکن تھے، جنہیں 26 دسمبر 2018کو متحدہ عرب امارات سے گرفتار کرکے بعد ازاں غیر قانونی طور پر پر پاکستان کے حوالے کیا گیا۔

سیمینار سے لاپتہ جہانزیب قمبرانی کی والدہ، لاپتہ امداد لہڑی کے بھائی نے بھی خطاب کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا حکومت اور ریاستی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پیاروں کو اپنے بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کرکے سزا دیں۔

سیمینار سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، این ڈی پی کے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، سابق سینیٹر مہیم خان بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ، ڈاکٹر حکیم لہڑی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جبری طور پر لاپتہ کرنا ملکی و بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

جس شخص کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے اس کو صفائی کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اسکے خلاف یک طرفہ کاروائی کی جاتی ہے اور دوسری طرف لاپتہ شخص کے خاندان کو اس کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جاتی ہے جو سراسر زیادتی اور ملکی قوانین کے خلاف ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا خاندان ذہنی اذیت سمیت بہت سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جو یقیناً غیر آئینی اور غیر اخلاقی فعل ہے اس لیے بین الاقوامی سطح پر جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ریاستوں کی ہدایت کی گئی ہے کہ چاہے حالات جو بھی ہوں، ہر حال میں انسانوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔

مقررین نے کہا کہ وفاقی سطح پر دوسال سے ایک قانون بنایا گیا ہے کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دیا جائے گا۔

لیکن اب تک اس قانون کو پاس کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔

مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے والے قانون کو فوری طور پر قومی اسمبلی میں پیش کرکے منظور کیا جائے۔

مقررین نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے لاپتہ پیاروں کی عدم بازیابی کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔

حکومت کو بے حسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی فریاد کو سن کر انہیں ملکی قوانین کے مطابق انصاف فراہم کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حکومت اور ملکی ادارے ملکی سلامتی کے نام پر طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اہل بلوچستان 73 سالوں سے احساس محرومی کے شکار ہیں اور بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتیاں ہوئی ہے اس کی وجہ سے اہل بلوچستان میں غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار اہل بلوچستان نے برمش اور حیات کے مسئلے بھرپور احتجاج کرکے کیا ہے۔

اس موقع پر مقررین نے کہا کہ اب بھی حکومت اور مقتدرہ قوتوں کو ان چیزوں کا ادراک کرکے اہل بلوچستان کے زخموں پر مرہم پٹی کرکے محرومیوں اور ظلم زیادتیوں کے ازالہ کرنے کا وقت ہے۔

طاقت کے ذریعے ان آوازوں کو دبا کر خاموش کرنے کا وقت گزر چکا ہے جب پرامن آوازوں کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ آوازیں خطرناک بن جاتے ہیں یقیناًاس طرح کے عمل ملک کے لیے مفید ثابت نہیں ہونگے۔