میں بابو سے ملا – بیبرگ بلوچ

699

میں بابو سے ملا

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کتنی ہی حسین کیوں نا ہو، کتنا ہی دور دنیا کےعظیم پر تعیش اور ترقی یافتہ جگہوں کا سفر کریں، اگر اپ ایک سچے اور اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہیں تو کہیں تم میں تمھارے زمین کی شناخت پیوست رہیگی، جہاں بھی ہوگے تم اپنے وطن سے جڑے رہوگے۔ ایسے ہی میں اپنے وطن سے دور اپنے وطن سے ملا، میں بابو سے ملا، میں بولان سے سے ملا، میں نے پارود، سیاجی، شال کو پایا، میں نے کاہان کو محسوس کیا،میں نے بلوچستان کو پایا-

میرا داغستان میں رسول حمزہ توف لکھتے ہیں کہ آپ جہاں بھی ہیں اپ اپنے وطن کے سفیر ہیں، اپ سے ہی آپ کے وطن اور قوم کی پہچان ہوتی ہے، دنیا والے آپ کو دیکھ کر اپ کے قوم و وطن کا اندازہ لگاتے ہیں اور جس نے بابو کو دیکھا اس سے ملا اس سے بات کی اس نے یقیناً بہت ہی حسین شفقت سے بھری ذہین خوبصورت بلوچستان پایا ہوگا، میں جب بابو سے ملا، میں بلوچستان سے ملا، میں وطن سے دور اپنے وطن سے ملا۔

بابو کو بیان کرنا مشکل نہیں، بابو ایک کھلی کتاب ہے، جس میں حانی شہ مرید کی چاہت، حمل اور بیبرگ کی مزاحمت، اکبر اور بالاچ کی عہد چلتن کی بلندی شامل تھی، بابو سے مل کر بلوچستان سے ملنے والے یقیناً ایک ایسے سنگت ہمراہ دوست ہمدرد سے محروم ہوگئے جو بلوچ اور بلوچ تحریک کے لئے سچے اور حقیقی درد رکھنے والے سپوت کی چاہت رکھتے ہیں، جو بابو سے کبھی ملے بھی نا ہو تب بھی انکو پتہ ہے وہ کیسے ایک عظیم ہستی قومی درد سے محروم ہوگئے-

بابو بلوچستان اسلئے تھا کہ اس نے بلوچستان کو ہر طرح سے محسوس کرکے اسے اپنے انکھوں میں بسایا تھا، بابو بلوچستان تھا۔ اس نے ہر بلوچ کو اپنایا تھا، بابو کی انکھو سے چھلکتی درد، ہمدردی کسی ایک مخصوص پارٹی، گروہ یا علاقے کے لئے نہیں، وہ تو عظیم بلوچستان کے خواب لئے ہر بلوچ کے لئے اپنے بساط سے زیادہ خدمت اور محبت کرنا چاہتا تھا، بابو ہی حقیقی فرزند ہے، اس زمین کا لیکن بلوچ کی قسمت کے بابو جیسے سپوت ہم سے بہت مختصر وقت میں بچھڑ جاتے ہیں۔

جاتے جاتے بابو سے کہا تھا رخصت اف سنگت ، اس نے مسکراتے ہوئے کہاں ملینگے سنگت- بلوچ جہد ازادی میں کئی سنگت ایسے بچھڑ جاتے ہیں جن سے اگلے ہی پل ملاقات کی امید رہتی ہے لیکن حالات اور وقت ہمیشہ ایک جہد کار کے لئے مشکل ہوتے ہیں کہ وہ ملنے کا وقت مقرر کرے، بابو کے ساتھ گزرے زندگی کے چار دن ان سانسوں کے ملے کچھ دنوں کے بہترین دن تھے

میں پھر سے بابو سے مل کر بلوچستان سے ملنا چاہتا تھا، میں ہر سرمچار کو محسوس کرنا چاہتا تھا، میں چلتن او بولان کو وطن سے دور وطن کو محسوس کرنا چاہتا تھا، میں بلوچ کی بزگی اور مزاحمت کو بابو کی انکھوں میں دیکھ کر مزاحمت کو دیکھنا چارہا تھا۔ 4 دن بابو کے فون کو ٹرائی کرتا رہا، خبر ملی ہم بلوچستان سے دور بلوچستان سے محروم ہوگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔