میرے دیس کے پہاڑوں کو کہواور اُونچا رہیں – محمد خان داؤد

150

میرے دیس کے پہاڑوں کو کہواور اُونچا رہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس کا سرخ لہو اب بھی پہاڑوں اور پتھروں پہ موجود ہے۔ وہ خون اِن پہاڑوں اور پتھروں پہ جم کے رہ گیا ہے۔ یہ تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یہ لہو نئی بہار کی علامت ہے۔ جیسے کسی بلوچ سرمچار کا بہتا، گرتا، ٹپکتا لہو نئی بہار کا اعلان ہوتا ہے۔ ایسے ہی بابو مری کا ان پہاڑوں پہ موجود لہو رنگ بھی نئی بہار کا اعلان ہے۔

وہ بھی قابل عزت ہیں جو پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ اپنے سروں پہ دیس کی آزادی کا پرچم لپیٹتے ہیں اور دھڑکتے دلوں کے ساتھ جاتے کانواؤں کی پہلی یا آخری قطاروں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

پر وہ بھی عظیم ہیں جو جہاں ہوتے ہیں وہیں ان کے سروں پہ دیس کا پرچم ہوتا ہے
وہ جہاں ہوتے ہیں وہیں ان کا دل دیس کی محبت میں دھڑکتا رہتا ہے
وہ جہاں ہوتے ہیں وہیں دیس کو نمسکار کرتے ہیں
وہ جہاں ہو تے ہیں وہیں سے دیس کی محبت میں سرشار ہو تے ہیں
وہ جہاں ہوتے ہیں دیس کی محبت میں جُڑے رہتے ہیں
وہ اپنے ہاتھوں میں بندوق نہیں تھامتے پر ان کا دل ہر وقت ان سرمچاروں کے ساتھ رہتا ہے
جو بلند و بالا پہاڑوں پہ نئی بہار کے منتظر ہوتے ہیں
بابو مری نے ان پہاڑوں پہ اپنا سرخ لہو نہیں بہایا تھا
پر یہ ضروری نہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور پہاڑوں کے دامنوں میں جو سرخ گلاب کھلیں
وہ بس کسی سرمچار کے بہائے ہوئے لہو سے ہی کھلیں؟!
وہ کسی دیس بھگت کے پسینے سے بھی تو کھل سکتے ہیں

تو ان پہاڑوں کی چوٹیوں اور دامنوں میں کئی ایسے بھول کھلے ہوئے ہیں جو بابو مری کے پسینے سے کھلے ہوئے ہیں
دیس غدار کا لہو اور پسینہ ایک ہوتا ہے
اور اسی طرح دیس بھگت،سرمچار کا لہو اور پسینہ ایک جیسا ہوتا ہے
سرخ،سفید
نمکین،نمکین
گیلا،گیلا
اب کسی کو یہ شکایت نہیں رہے گی کہ بابو مری کیسا دیس بھگت ہے؟
اور سوال اُٹھانے والے یہ بھی سوال اُٹھائیں گے کہ وہ تو سرمچار بھی نہ تھا
تو کیا وہ مائیں دیس بھگت نہیں ہوتیں جن کے لال پہاڑوں کے درمیان لہو سے سرخ ہوکر نیچے گرتے ہیں اور ان کی زباں پر ایک ہی شبد ہوتا ہے کہ
،،اماں!،،

وہ مائیں بھی دیس بھگت اور سرمچار ہو تی ہیں، جو اپنے پیاروں کو پہاڑوں کے دامنوں میں بھیج دیتی ہیں اس آس پر کہ دیس میں نیا سورج طلوع ہوگا!

بابو مری بھی دیس بھگت اور سرمچار ہی تھا، پر یہ الگ بات ہے کہ اس کا لہو اس طرح نہیں بہا جس طرح ان سرمچاروں کا بہتا ہے جو اپنے ہاتھوں میں بندوق، سینوں میں محبوبہ کی محبت اور سر پر کفن باندھے پہاڑوں کی اُوٹ میں موجود ہوتے ہیں۔ اور جب گولی ان کے سینوں کو پار ہوکر گزرتی ہے تو جہاں جہاں وہ لہو گرتا ہے، وہاں وہاں نیا سرخ پھول کھلنے کی اُمید جاگ جاتی ہے۔
بابو مری سے اب کسی کو یہ شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ اس نے دیس کی گلیوں میں اپنا لہو نہیں بہایا
بابو مری نے دیس کی گلیوں میں پہلے پسینہ بہایا اور اب بعد از مرگ ان ہی گلیوں میں اپنا لہو بہایا ہے
اور اس لہو کہ شاید وہ پتھر ہیں جو ان چوٹیوں پر موجود ہیں جو سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں
سب کچھ!
بابو مری جب بلوچستان کے دامن میں چلتا تھا تو جب بھی اس کا پسینہ پہاڑوں پہ گرتا تھا اور اب جب وہ کسی حادثے کا شکار ہو کر بھاری پتھروں کے نیچے اس امید کے ساتھ دفن ہورہا ہے کہ جب دیس آزاد ہو تو اسے جگادیا جائے تو اس کا لہو ان ہی پتھروں پہ گرا ہے جن پتھروں سے سرخ پھول کھلنے کو بے تاب ہیں
جب کوئی دیس بھگت
یا سرمچار کسی المناک موت کا شکار ہو کر پتھروں کی اُوٹ لیکر سو جاتا ہے تو دھرتی صدیوں کا ماتم کرتی ہے اور چاند بے نور ہو جاتا ہے۔
بابو مری کے حادثاتی المناک موت پر بھی دھرتی اور چاند کی یہی کیفیت ہے
تم بلوچستان کو دیس بھگت کی آنکھوں سے دیکھو تو تم بھی وہ ماتم دیکھ سکتے ہو جو دھرتی پر جا ری ہے
وگرنہ تو بلوچستان تمہا رے لیے بھی ویسا ہی ہوگا جیسا جام کمال کے لیے
بلوچستان کو سرمچار کی نظروں سے دیکھو!
بلوچستان کو دیس بھگت کی نظروں سے دیکھو!
بابو مری جیسے لوگ دیس کا پرچم نہیں ہو تے
پر ان کے بغیر دیس کا پرچم بھی مکمل نہیں ہوتا
بابو مری جیسے لوگ کا قومی نشان نہیں ہو تے
پر ان کے بغیر دیس کا قومی نشان بھی مکمل نہیں ہوتا
بابو مری جیسے لوگ دیس کا لکھا آئین نہیں ہوتے
پر ان کے ذکر کے بغیر دیس کا آئین بھی مکمل نہیں ہوتا
بابو مری جیسے لوگ دیس کا قومی ترانہ نہیں ہوتے
پر ان کے بغیر قومی ترانہ مکمل بھی نہیں ہوتا!

بابو مری جیسے لوگ دیس کی گلیاں ہو تے ہیں۔ بابو مری جیسے لوگ دیس کے گاؤں ہو تے ہیں۔ بابو مری جیسے لوگ دیس کے بھگت ہو تے ہیں۔ بابو مری جیسے لوگ دیس کے دیہات ہو تے ہیں۔ بابو مری جیسے لوگ دیس کے بارونق شہر ہو تے ہیں۔ بابو مری جیسے لوگ دیس کی ہوائیں ہوتی ہیں۔ بابومری جیسے لوگ نئی اُمید ہوتے ہیں۔ بابو مری جیسے لوگ دیس کی بارشیں ہوتی ہیں۔

بابو مری جیسے لوگ دیس کے آبشار ہوتے ہیں، جن میں محبت کپڑوں سے عاری ہوکر نہاتی ہے۔
بابو مری جیسے لوگ دیس کی محبت ہوتی ہے
ایسی ہی محبت کچھ دن پہلے بھاری پتھروں کے نیچے دفن ہوگئی
اور دیس سے کہہ گئی ہے کہ
میرے دیس کے پہاڑوں کو کہو!”اور اُونچا رہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔