غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں – عبدالواجد بلوچ

989

غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عزت اور غیرت کا تصور صدیوں سے ہر معاشرے میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ بنیادی حقوقِ انسانی کے جدید تصور میں بھی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا حوالہ ملتا ہے، ہمیشہ قوموں اور ملتوں کے لئے عزت کا باعث بننے والوں کے سینے پر تمغے سجائے گئے ہیں۔

عزت دینا، عزت افزائی کرنا، باعث عزت ہونا؛ عزت چھینا، عزت خاک میں ملنا، عزت لوٹنا اور زبان اور محاورہ کی ایسی ہی دوسری تراکیب اس بات کا ثبوت ہیں کہ عزت اور بے عزتی کا تصور خاصا قدیم اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

ترقی کے اس دور میں جہاں دنیا آسمانوں پر کمندیں لگا رہا ہے، کرہ ارض پر سکونت کے طویل دورانیہ کے ساتھ اب انسان چاند پر زندگی کرنے کی نت نئی تراکیب سوچ رہا ہے یقیناً ہم بلوچ بھی اس کرہ ارض کے باشندے ہیں گو کہ ہم نے ابھی تک آسمان پر کمندیں لگانے کا تصور ہی نہیں کیا ہوگا لیکن ترقی کے اس دیوہیکل دور میں ہم بھی سانسیں لے رہی ہیں ہمارے بھی کچھ خواہشات ہونگے کچھ امیدیں ہونگی کچھ کرنے کا جزبہ بھی ہوگا یہی وہ ضروریات تھیں جن کے لئے شاہینہ شاہین نے اپنے لئے کچھ خواب بُنے ، کچھ نقش اپنے ذہن پر سجائے محنت لگن اور ذہانت کو ساتھ ملا کر اپنے سر پر باپ کا سایہ نا ہونے کے باوجود وہ ماں کی لوریوں کو سن کر اس مقام تک پہنچے جس مقام پر انہوں نے خود کو اپنے تین بہنوں کو اور اپنے عظیم ماں کو جو ان کے لئے ایک حوصلہ تھیں سب کو ایک لڑی میں باندھ کر انہوں نے ایک مضبوط رشتہ قائم کیا تھا ۔

پدرسری سماج کے اُن حیوانوں سے یقیناً شاہینہ جیسی بہادر لڑکی نے ٹکّر تو لی تھی، عجیب ہوگا وہ لمحہ جب ایک لڑکی ترقی و کامرانی کے منزل طے کررہا ہو اور پدرسری سماج کے حیوان نما درندے اس پر حسد کھاتی ہوں ایک تصور پلک جھپکتے ہی زہن کے دریچوں پر دستک دے گی کہ “انسان کتنا خود غرض ہے”جو خود کرتا کچھ نہیں پر دوسروں کے دیار اجاڑ دیتا ہے کیونکہ اب وہ خود کو ’شرافت‘ کے مروجہ پیمانے پر ہلکا محسوس کرنے لگتا ہے جن کی نہ کوئی شرافت ہے اور نا ہی سماجی عزت۔

شاہینہ شاہین کا بہیمانہ قتل نا Honor killing ہے اور نا ہی کوئی گھریلو مسئلہ بلکہ بلوچ سماج میں یہ قتل آرٹ کا قتل ہے، یہ قتل فن پارے کا قتل ہے، یہ قتل صحافت کا قتل ہے، یہ قتل بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ کا قتل ہے، مکران کے دیار میں ان سیکیولر ویلیوز کا قتل ہے، جس سے بلوچستان کے باقی اضلاع اور شہروں سے مکران کا ایک نام تھا، یہ قتل بلوچ بچیوں کا راستہ روکنے کی ایک طویل سازش ہے جس سے ایک بچی پڑھ کر آگے آکر کچھ کرنے کی تمنا کرسکے، شاہینہ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کہتی تھی کہ
“من ھما درچکے بر بوھگ لوٹاں
وش بہ بیت تامے چہ براں وشیں
دروشم ءَ چہ درائین آں زیبا تر
ساھگے سارتیں بکشیت دنیا ءَ”

جی ہاں وہ ہماری دنیا کو ایک سایہ فراہم کرنا چاہتی تھی اُن کی یہ خواہش تھی کہ بلوچستان کی وہ تمام بچیاں آگے آئیں پڑھیں کچھ کریں جن کو پدر سری سماج کے حیوان نما انسان صرف بچہ جننے کا مشین سمجھتی ہیں.

یہ کوئی نئی بات نہیں آرٹ، فن فارہ، علم و ہنر کا سرعام اس طرح قتل کوئی اچانک پلک جھپکتے سرزد نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ رچائی جاتی ہے، جی ہاں یہ دشمن کی ان منصوبوں کا تسلسل تھا جس سے کچھ مہینے قبل بلوچستان یونیورسٹی میں فیمیل ہاسٹل پر کیمروں کا نصب ہونا اور بی ایم سی میں بلوچ بچیوں کے تعلیم پر قدغن لگانا، مکران ہمیشہ علم و ہنر، سیاست کے میدان میں آگے تھا اور دشمن کے لئے “مکران”ہمیشہ آنکھوں کا وہ کانٹا تھا جو اسے ہر لمحہ چُھبتا تھا بلوچ کی طویل اس بھتّر سالہ جدوجہد میں دشمن ریاست کا ہمیشہ فوکس یہی تھا کہ “مکران”کو کسی صورت سر اٹھانے نا دے کیونکہ جہاں شعور ہو، علم ہو، سیاست کے پیچ و تاب کو سمجھنے کا گُر ہو وہاں انقلاب جلد رونما ہوسکتا ہے، اس لئے ریاست کی پالیسیاں تسلسل کے ساتھ مکران کے خوبصورت چہرے کو بھیانک بنانے کی طرف انتہائی تیزی سے جاری ہیں۔ ایک ہی سال میں پے در پے بانک ملکناز کا واقعہ، بانک کلثوم و حیات کے واقعے کے فوراً بعد بلوچ آرٹسٹ، اینکر اور ادیبہ شاہینہ شاہین کا اس طرح بہیمانہ قتل اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ ریاست ایک حد تک اپنی بنائی گئی پالیسیوں میں کامیاب ہوچکا ہے، مکران میں ڈیتھ اسکواڈ کے قیام سے لیکر انہیں انتہاء درجے تک سہولیات دینا اور انہیں بدمست جانوروں کی طرح کھلی چوٹ دینا اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ دشمن ریاست بلوچ سماج کو مکمل طور کھوکھلا کرکے اسے بانجھ بنانے کے درپے ہے. بلوچ قومی جہد آزادی سے دستبردار ہونے والے اُن بھگوڑوں کو ان کی اوقات سے زیادہ سہولیات سے آراستہ کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ دشمن کسی بھی طرح شعور کو بلوچستان میں پھلنے پھولنے نہیں دینا چاہتا۔

نام نہاد غیرت کے نام پر مکران کے سکیولر ویلیوز کو مذہبی شدت پسندانہ سوچ کے ساتھ مکس کرکے بلوچ سماج کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی سازشیں انتہائی تیز ہوچکی ہیں ۔ بدقسمتی سے شاہینہ شاہین کے اس سازشی قتل کے خلاف بلوچستان کی وہ سیاسی قوتیں خاموش ہیں محض اس لئے کہ وہ اس واقعے کی نوعیت کو سمجھنے میں ناکام ہوکر اس کو صرف گھریلو مسئلہ قرار دیکر راہ فرار اختیار کرچکے ہیں (یا کہ انہیں اپنے ووٹ بینک کا فکر ہونا) جو کہ نادانستہ طور پر ریاستی پالیسیوں کو بڑھاوا دینے کے سبب بن رہے ہیں اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کی آزادی پسند سیاسی قیادت اس واقعے کے خلاف کچھ خاص پالیسیاں مرتب نہیں کرپارہا، جس سے آنے والے وقتوں میں ایک خوشحال اور مساوات کے بنیاد پر عظیم بلوچستان کا وجود ممکن ہو.

گذشتہ دن شاہینہ شاہین شہید کی بہن کی آنسوؤں سے لبریز ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں اک درد، اک آہ، اک تمنا چھپا ہوا تھا درد کو سمجھنے والے اس کرب و ازیت بھرے لمحے کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بلوچ قوم سے ساتھ دینے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی اپیل کررہی ہے اگر اس کے باوجود ہم اس واقعے کے خلاف خاموش رہے تو نا ہمیں تاریخ معاف کریگی اور نا ہی ہمارے آنے والی نسلیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔