عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے تاریخی معاہدے پر دستخط

390

متحدہ عرب امارات اور بحرین نے واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیل کے ساتھ تاریخی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔

عرب نیوز کے مطابق تاریخی معاہدے ’ابراہام اکارڈ‘ پر دستخطوں کے بعد خلیج کے یہ دونوں ملک اسرائیل سے مکمل سفارتی تعلقات رکھنے والے دیگر دو عرب ملکوں مصر اور اردن کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔

معاہدے پر دستخطوں کی اس تقریب میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید، بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف بن راشد الزایانی اور اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے شرکت کی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے بحرین اور امارات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے لیے نئی شروعات قرار دیا۔

تقریب کے لیے وائٹ ہاؤس میں جمع سینکڑوں شرکا سے خطاب میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دہائیوں کے تنازعات اور تقسیم کے بعد ہم ایک نئے مشرق وسطیٰ کی شروعات کا نظارہ کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’آج کی دوپہر ہم یہاں تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے کے لیے جمع ہیں۔‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق تینوں ملکوں نے اس دوران ایک سہ فریقی معاہدے پر بھی دستخط کیے جس کا مسودہ ابھی سامنے نہیں آسکا۔

معاہدے پر دستخطوں کی یہ تقریب وائٹ ہاوس کے جنوبی لان میں منعقد ہوئی ۔ یہ یہی جگہ ہے جہاں سنہ 1993 میں اسرائیل اور فلسطینی قیادت نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس تقریب میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت 700 اہم شخصیات نے شرکت کی۔

قبل ازیں جمعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ بحرین اور اسرائیل ایک امن معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’ایک اور تاریخی پیش رفت، ہمارے دو عظیم دوست اسرائیل اور بحرین امن معاہدے پر رضا مند ہوگئے ہیں‘۔

خیال رہے رواں سال اگست کے مہینے میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے لیے معادہ ہوا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیاں سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

رواں سال  13 اگست کو ایک مشترکہ بیان میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل  نے کہا تھا کہ ’اس تاریخی سفارتی بریک تھرو سے مشرقِ وسطٰی میں امن کو فروغ ملے گا۔ یہ معاہدہ تین رہنماؤں کی دلیرانہ سفارتکاری اور وژن کا ثبوت ہے۔ اس معاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ایک نئے راستے پر چلنا چاہتے ہیں جس سے خطے کی بھرپور صلاحتیں بروئے کار آئیں گی۔