بلوچستان میں ایف سی اختیارات پر تنقید کی زد میں

614

بیس ستمبر کو اسلام آباد میں حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان کی حزب اختلاف کی اہم جماعتوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ، بلوچستان میں بھی متعدد تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا۔

کثیر الجماعتی اجلاس کے بیان میں بلوچستان میں قانون کی حکمرانی کے احترام اور ایف سی کو دیئے گئے اختیارات واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر ضلع میں فرنٹیئر کور کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جائے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب اپوزیشن جماعتوں نے بلوچستان میں ایف سی کے اختیار اور کام کے بارے میں شکایت کی ہے۔

اس سے قبل، بلوچستان اسمبلی اور دیگر جگہوں پر متعدد جماعتوں نے شکایت کی ہے کہ ایف سی نے بلوچستان میں اپنی حکومت تشکیل دی ہے۔

حزب اختلاف نے ایف سی پر صوبائی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے اور خود ہی کام کرنے کا الزام عائد کیا۔

اسمبلی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء نصر اللہ زیرے نے کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ایف سی فورس کو طلب کیا گیا تھا لیکن اب ایف سی مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف وفاق انہیں تنخواہ دیتا ہے اور دوسری طرف بلوچستان حکومت ایف سی کو سالانہ اربوں روپے ادا کرتی ہے۔ لیکن بلوچستان حکومت کی خواہش کے برعکس ایف سی نے بلوچستان میں غیر قانونی طور پر چوکیاں قائم کر رکھی ہیں۔ وہ ایک ٹن کوئلہ پر 500 روپے لیتے ہیں جو ایک سال میں دس ارب روپے بنتے ہیں اور یہ پیسہ صرف ان کے پاس جاتا ہے۔

نصراللہ زیرے کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ایف سی نے پشتون اور بلوچ علاقوں میں شاہراہوں پر چوکیاں قائم کی ہیں جو لوگوں سے بھتہ لے رہے ہیں اور لوگوں ہراساں کررہے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے ہی بلوچستان میں ایف سی کو اختیار دینے کی مخالفت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہیں اور دوسری طرف عوامی امور میں ایف سی کی شمولیت سیکیورٹی فورسز کے بارے میں لوگوں میں نفرت پھیلاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا  کہ یہ شکایات اب سے نہیں ہیں، لیکن پہلے دن سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ ایف سی کو صرف ملک کی سرحدوں پر ہونا چاہیے لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تنازعات میں ملوث نہیں ہونا چاہئے۔۔ ہم کہتے ہیں کہ سرحدوں کو رکھنے کے علاوہ ایف سی سے کوئی کام نہیں لیا جانا چاہیے۔

ستمبر 2012 میں اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی ہدایت پر بلوچستان اور خاص طور پر کوئٹہ میں سیکیورٹی ایف سی کے حوالے کردی گئی تھی۔ اس کے بعد سے بلوچستان حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لئے ایف سی فورس کے مدت میں ہر تین ماہ میں توسیع کرتی رہی ہے۔

بلوچستان کی صورتحال پر رائے رکھنے والے صحافی شہزادہ ذوالفقار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایف سی فورس کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کی شکایت جائز ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں لوگ وقتاً فوقتاً ایف سی کے طرز عمل کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن اگر حکومت ایف سی سے اختیار لیتی ہے تو پہلے پولیس کو جدید طریقے سے تربیت دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو چھوٹے اور مقامی معاملات پر تربیت دی گئی ہے، لیکن اب انہیں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لہٰذا وہ نہیں کرسکتے، جب پولیس کو مناسب طریقے سے تربیت دی جاتی ہے اور ایک فورس تشکیل دی جاتی ہے تو وہ بھی وہی کام کرسکتے ہیں۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ایف سی کے خاتمے کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایف سی پاکستان اور بلوچستان میں بھی ایک فورس ہے، پولیس اور لیویز بھی ملکی فورس ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی تربیت صرف ایف سی فورس کو دی گئی ہے اور موجودہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ ایف سی کو ہٹھایا جاسکے۔

ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایف سی کو سال کے لئے کتنی ادائیگی کی جاتی ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس سے انکار نہیں کیا گیا کہ ایف سی میں کوئی دھوکہ دہی یا رشوت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سسٹم میں ہے اور جب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہوتا تب تک موجود رہے گا۔ لیکن انہوں نے اپوزیشن سے ایف سی چوکیوں کی تعداد کم کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر اجلاس منعقد ہونے کے بعد شاہراہوں پر ایف سی چیک پوسٹوں کی تعداد جلد ہی کم کردی جائے گی۔