بلوچستان جل رہا ہے – محمد خان داؤد

186

بلوچستان جل رہا ہے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب کسی بلوچ باپ کے بیٹے کو گم کر دیا جاتا ہے اور اس کے ہرے بھرے باغ کو جلا دیا جاتا ہے
تو اس کے پاس کیا رہ جاتا ہے کہ وہ زندہ رہے؟ پر وہ پھر بھی زندہ رہتا ہے۔!
جب کسی ماں کے جوان بیٹے کو رات کے آخری پہروں میں اُٹھا لیا جائے اور اس ماں کو یہ ڈر لگا رہے کہ کہیں اسے مسخ شدہ لاش بنا کر نہ پھینک دیا جائے اس ماں کے پاس سوائے وسوسوں کے کچھ نہیں رہتا پھر بھی وہ ماں زندہ رہتی ہے۔
کسی ماں کا جوان بیٹا یونیوورسٹی سے اُٹھا لیا جائے اس بیٹے کا قصور بس یہ ہو کہ وہ بہت کتابیں پڑھتا ہو اور دلیل کے اور بغیر دلیل کے بہت باتیں کرتا ہو اس ماں کو یہ ڈر ہو کہ کہیں اس مار نہ دیا جائے۔وہ ماں مسافر بن جا تی ہے۔
کوئی ماں ان پہاڑوں کو جوان بیٹا دے اور یہ پہاڑ بدلے میں اس ماں کو ایک ایسی لاش دے جو ناقابل شناخت ہو وہ ماں پھر بھی جیتی رہتی ہے۔
کوئی ماں ان پہاڑوں کو بولی بولی سے بھر دے اور بدلے میں اس بلوچی بولی اور اس ماں کے ساتھ وہ حشر ہو کہ اس کا بلوچی بولتا جوان بیٹا لاوارث لاش کی صورت میں ملے اور ایدھی کے رضاکر اس کی قبر پر کسی نمبر کا کتبہ لگا کر دفنا دیں۔
کوئی ماں اس ریاست کی جھولی کو بولی کے پھولوں سے بھر دے
ایسی بولی جس بولی میں بے تحاشہ گیت ہوں اور بدلے میں یہ ریاست اس ماں کو پہلے مسافر بنا
گھر سے دور کرے، اداس کیمپوں کا مسافر بنائے اور ایسا مسافر جن مسافروں کی کوئی منزل نہیں
اور پھر ایک مسخ شدہ لاش دے کر اس ماں کی جھولی کو ہمیشہ ہمیشہ آنسوؤں سے بھر دے
بلوچ مائیں
ریاست کو بیٹے دیں
ریاست بدلے میں ماؤں کو فکریں دے
بلوچ مائیں ریاست کی جھولی میں پھول جیسے بچے ڈالیں
اور بدلے میں ریاست ان ماؤں کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دے
بلوچ مائیں ریاست کی مانگ کو سنواریں
اور ریاست بلوچ ماؤں کی مانگ کو اداس لاشوں سے بھر دے
بلو چ مائیں چاہتی ہیں کہ وہ اپنے کچے گھروں میں خوش رہیں
ریاست چاہتی ہے کہ یہ مائیں صدا کی مسافر بن جائیں
بلوچ ماؤں نے بیٹے جنیں اور ان پر خوبصورت سے نام رکھے
ریاست نے سب خوبصورت ناموں کو بد صورتی میں بدل دیا
اور سب ناموں کو ایک ہی تختی پر لکھ دیا
،،لاورث لاشیں
مسخ شدہ لاشیں!،،
جنہیں ایدھی کے رضاکر من و سلویٰ کی ماند پہاڑوں کی چوٹیوں سے چنتے ہیں اور پہاڑوں کے دامنوں میں دفن کر دیتے ہیں!
ان کے دفن ہونے سے دو قبریں بنتی ہیں
ایک دشت میں
اور ایک ان ماؤں کے سینوں میں
دشت کی قبریں بے نام بے نشان ہوتی ہیں
پر ماؤں کے سینوں پر موجود قبریں بے نام نہیں ہو تیں، بے نشان نہیں ہو تیں
ان قبروں میں کوئی حمل سورہا ہوتا ہے
کو جئیند سورہا ہوتا ہے
اور مائیں ہوتی ہیں، ماؤں کے دل ہوتے ہیں، جو ان قبروں کا طواف کرتے رہتے ہیں
اور نین ہوتے ہیں جو ان قبروں کا صدا تر کیئے رہتے ہیں
قبریں کبھی خشک نہیں ہوتیں مائیں ہوتی ہیں، جن کے آنسو صدا ان قبروں کو تر رکھتے ہیں!
وہ مائیں ہوتی ہیں۔ مسافر تو نہیں پر میرے آپ کے عمل نے ان ماؤں کو مسافر بنا دیا ہے
وہ مائیں بھی جینا چاہتی ہیں۔ رونا چاہتی ہیں، ہنسنا چاہتی ہیں
مجھے کوئی تو بتائے کہ وہ مائیں جوان بیٹوں کے بغیر جئیں تو کیسے جئیں؟!
ہنسیں تو کیسے ہنسیں
ان ماؤں کے مقدر میں بس رونا لکھ دیا گیا ہے سو وہ رو رہی ہیں
بوڑھے بابا جوان بیٹوں اور ہرے باغوں کے بغیر کیسے جی پاتے ہیں؟

اس سوال کوسمجھنے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ہمیں بلوچستان کو دیکھنا ہوگا۔ ریاست کا قومی میڈیا تو کچھ نہیں دیکھ رہا۔ وہ میڈیا مریم نواز کا ٹوئیٹ تو دیکھ رہا ہے۔ پر یہ میڈیا یہ نہیں دیکھ رہا کہ آپریشن کے نام پر منزگ اور مند میں امیر بلوچستان کے غریب بیٹوں کے کھیتوں، کھلیانوں اور ہرے بھرے باغوں کو کیسے جلایا جا رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں بلوچ بیٹوں کو مسنگ کیا گیا، دوسرے مرحلے میں، ان بلوچ بیٹوں کی ماؤں، بہنوں اور محبوباؤں کو مسافر بنایا گیا، تیسرے مرحلے میں مسخ شدہ لاشوں اور لاواث لاشوں کی سریز کو چلایا گیا، چوتھے مرحلے میں دشت کے قبرستان کو لاورث لاشوں سے بھر دیا گیا اور اب پانچویں مرحلے میں امیر بلوچستان کے غریب ہاریوں کے آپریشن کے نام پر کھیتوں، کھلیانوں اور باغوں کو جلایا جا رہا ہے۔ اس آگ کی تپش اسلام آباد اور پنجاب تک تو نہیں پہنچ رہی پر اس آگ کی تپش سندھ محسوس کر رہا ہے اور سندھ پوچھ رہا ہے کہ
،،یہ کس کے کھیت جلے
یہ کس کا کھلیان جلا؟،،
بلوچستان کے بلوچ بیٹے پہلے مارے گئے اور اب اس کے باغ جلائے جا رہے ہیں
تو یہ بلوچ بوڑھے بابا کس کو اپنا قصہء غم سنائیں
،،کنھن در ڈجے دانھنئیڑی؟!،،
،،کس در فریاد درج کرائی جائے؟!!،،
باغوں میں آگ لگانے سے کیا درخت جلتے ہیں؟
باغوں میں آگ لگانے سے
آشیانے جلتے ہیں
کئی پنکھ جلتے ہیں
ان کے بچے اور بچوں کے سپنے جلتے ہیں
مسافر پرندے جلتے ہیں
انڈوں میں محو خواب معصوم جلتے ہیں
کئی جیون جلتے ہیں
بلوچ جلتا ہے
بلوچ کلچر جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے

اس وقت منزگ اور مند میں بھی یہی ہو رہا ہے، ہرے بھرے باغوں میں آگ لگی ہوئی ہے جس آگ کی لپیٹ میں بس مسافر پرندے ہی نہیں۔ معصوم کے خواب اور سپنے نہیں پر بلوچ بولی، بلوچ کلچر اور بلوچستان جل رہا ہے۔ اور پیچھے مڑ کے دیکھتے ہیں تو ایک طویل خاموشی ہے
جام کمال کی بات ہی کیا
ثناء بلوچ چُپ ہے
اختر مینگل بھی روزے سے ہے
اور ڈاکٹر مالک بھی قفلِ مدینہ لگائے خاموش ہے
اور بلوچستان جل رہا ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔