پاکستان کا نام نہاد میڈیا – محمد خان داؤد

159

پاکستان کا نام نہاد میڈیا

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کے قومی نام نہاد میڈیا میں اتنی جرئت ہی نہیں کہ دکھا پائے وہ آگ جس آگ سے سب کچھ جل گیا ہے۔ اگر وہ آگ پہاڑوں پہ جلتی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے بکھر جاتے کالے سیاہ ہو جاتے۔ اگر وہ آگ درختوں کو لگتی تو سوائے کوئلے کے کیا بچتا؟ پر وہ مائیں اس آگ کو اپنے سینے پہ لیے در بدر پھر رہی ہیں۔ وہ بہنیں اس آگ کو لیے مسافر بنی ہیں اور منزل ہے کہ ملتی ہی نہیں۔ وہ بہنیں بن منزل کے مسافر بنی ہیں اور ان کے پیر ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چلتے ہی رہتے ہیں ان کے پیر ان سے تمر جیسی شکایت بھی نہیں کرتے اور وہ بھی سسئی کی مانند چلتی ہی رہتی ہیں۔ ان محبوباؤں کا ذکر ہی کیا جن کے نین انتظاری کیفیت میں تھک سے گئے ہیں، پر ایسا کوئی معجزہ نہیں ہوتا کہ وہ لوٹ آتے اور وہ بچے جو ان ماؤں کے ساتھ دکھوں کو جھیلتے ہیں اور اپنی عمر سے پہلے ہی بڑے ہوگئے ہیں اور ماؤں کو پریشان نہیں کرتے
مائیں!
محبوبائیں
اور بہنیں
اس آگ کو لیے چل رہی ہیں جو آگ پاکستان کے نام نہاد قومی میڈیا کو نظر نہیں آتی
وہ آگ ان ماؤں کے سینوں میں جل رہی ہے جس سے وہ سوزانِ یار ہو چلی ہیں پر کسی کو کچھ نظر نہیں آرہا
وہ آگ جس آگ کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
،،دل میں ذوقِ وصل ویادِ یار تک باقی نہیں
آگ اِس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا!،،

اب تو وہ مائیں نہیں جانتی کہ ان کا گھر کیسا تھا؟ کہاں تھا؟ کون سے گلی سے ہوکے ان کا گھر آتا تھا؟ اس گھر کے آنگن میں کون سا پیڑ لگا ہوا تھا؟ اگر وہ پیڑ نیم کا تھا تو اب سا کا کیا ہوا؟
عرصہ ہوا وہ مائیں گھروں کے مقیم نہیں اب تو عرصہ ہوا وہ مائیں دردوں کی مقیم ہیں
وہ مائیں تو بس یہ جانتی ہیں کہ
،،ان ہی گلیوں سے ہوکہ یار آتا تھا؟!،،
اب وہ یار کہاں ہے؟
وہ معصوم مائیں کچھ نہیں جانتی، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے پیاروں کو گم ہوئے کتنا وقت گذر گیا ہے؟ وہ مائیں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ اپنے ان گھروں سے کب سے دور ہیں جن گھروں میں وہ اپنے پیاروں کی فرمائیش پر کھانا بنایا کرتی تھیں اب تو زمانہ ہوا ہے وہ معصوم مائیں ہر قسم کے روزے سے ہیں۔
گھروں کی دوری کے روزے سے
اپنے آنگن میں نہ جانے کے روزے سے
اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کی فرمائیشیں پو ری نہ کرنے کے روزے سے
اپنے گھروں میں اپنے بستروں پہ نہ سونے کے روزے سے
دنیا کے تمام دکھ کے روزے ان ماؤں پر ٹوٹ رہے ہیں
وہ سب کچھ بھول گئی ہیں۔ وہ سب کچھ بھول رہی ہیں
انہیں رشتے یاد نہیں انہیں اپنے یاد نہیں،انہیں گھر یاد نہیں۔ انہیں گھروں کے در یاد نہیں
انہیں گلیاں یاد نہیں۔ انہیں نام یاد نہیں۔انہیں رنگ یاد نہیں
انہیں اب تو صبح شام بھی یاد نہیں
اب تو ان کی زندگی میں تاریکی در آئی ہے۔ وہ اپنوں کو رو رو کے اندھی ہو چکی ہیں
وہ اپنوں کی یاد میں چل چل کے مسافر بن چکی ہیں
وہ کیا یاد رکھیں؟اور کیا بھولیں؟
اس سے اچھا ہے کہ وہ سب بھول جائیں

وہ سب کچھ بھول بیٹھی ہیں، بھلا دردوں میں کیا گھروں کے پتے یاد رکھے جا تے ہیں؟ کیا دکھوں میں یہ یاد رہتا ہے کہ ،،میں کون ہوں؟اور تم کون ہو؟!،،اب تو انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں؟ اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ تم کون ہو؟ ،،وہ تو بس اتنا جانتی ہیں کہ جب وہ رات کو اپنے کچے گھر میں سورہی تھی تو پڑوسی کے لڑکے نے آکے بتایا تھا کہ بہت سے گاڑی والے اس کے بیٹے کو اس گاڑی میں زبردستی لیئے جارہے تھے اور ہاں اس کے چہرے کو سیاہ کپڑے سے ڈھانپا بھی گیا تھا۔ جب سے وہ مائیں سب کچھ بھول کے ایام ِ ماتم میں بسر کررہی ہیں۔
وہ مائیں جو معصوم ہوا کرتی تھیں
اب وہ مائیں ماتمی مائیں ہیں
ایسی مائیں جو سب کچھ بھول جائیں جن کے لیے غالب نے کہا کہ
،،دل میں ذوقِ وصل ویادِ یار تک باقی نہیں
آگ اِس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا!،،
جب سب جل جائے تو کیا بچتا ہے؟
شاید بہت کچھ؟ شاید کچھ بھی نہیں

اس لیے پاکستان کے قومی نام نہاد میڈیا کے کیمروں کا رخ کبھی اس طرف نہیں ہوا، جس طرف مسافر مائیں سفر کرتی ہیں جو اپنے تھکے ماندے پیروں کو لیے بلوچستان کے رہ گزاروں میں در بدر ہو رہی ہیں۔ جو اپنے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصاویر لیے سب گذرنے والوں سے پوچھتی ہیں کہ
،،کیا تم نے انہیں کہیں دیکھا ہے؟!،،
جو تصویروں میں سب ایک جیسے دکھتے ہیں پر ان کے نام الگ الگ ہیں
پر شیکسپئیر نے کہا تھا،،نام میں کیا رکھا ہے!،، واقعی نام میں کیا رکھا ہے، اب تو وہ سب درد ہیں سب دکھ ہیں۔ وہ مائیں جو اپنے پیاروں کے لیے عید پر کپڑے لیے روڈوں پر درد کاتماشہ بنی ہوئیں تھیں کہ شاید اس ریاست کے کیمروں کا رخ اس طرف بھی ہو پر ایسا کچھ نہ ہوا۔

عید کے دنوں میں جب دکھی مسافر مائیں اپنے پیاروں کا عید کا سامان لیے کوئٹہ کی گلیوں میں ماتم یار کر رہی تھیں تو پاکستان کے نام نہاد میڈیا کے کیمروں کا رخ ان ماؤں کی طرف نہیں ہوا پر وہ بے ہودہ کیمرے آسماں پر اس بادل پر جا کر ٹک گئے جس بادل کے ذروں میں انہیں PTI لکھا نظر آیا اور ہر طرف واہ واہ سبحان اللہ کے نعروں سے آسمان گونج اُٹھا اور پاکستان کے بے شرم قومی نام نہاد میڈیا نے ان بادلوں کے ذروں کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا اور دوسری طرف دکھی مائیں تھیں جو اپنے پیاروں کا عید کا سامان لیے منتظر آنکھوں سے ریاست کی جانب دیکھ رہی تھیں کہ یہ ماں جیسی ریاست ان منتظر ماؤں سے بدلے میں کیا سلوک کرتی ہے؟ پھر اس ریاست نے اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں پہ بال ڈالے اور سو گئی
پاکستان کا نام نہاد میڈیا اگر ان ماؤں کے آنسو دکھاتا اور اپنے کیمروں کا رخ ان کی جانب کرتا
تو یہ ریاست اگر ریاست نہیں
تو وہ میڈیا اگر وہ میڈیا بھی نہیں
تو وہ کیمرے ضرور ان آنسوؤں میں ڈوب جاتے جو
دکھی ماؤں کے آنسو ہیں!
جو مسافر بہنوں کے آنسو ہیں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔