مجھے موت کیا آنی ہے، میں تو ہر ایک میں زندہ ہوں – برزکوہی

1383

“مجھے موت کیا آنی ہے، میں تو ہر ایک میں زندہ ہوں”

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ایک غیر معمولی و ہمہ جہت شخصیت کا مالک، ایک ایسا عظیم انسان جسکے اعصاب عسکر کے لیکن حساسیت ایک شاعر کی اور خیالات کی گہرائی ایک مفکر جیسی، بی ایل اے مجید بریگیڈ اسٹاک ایکسچینج فدائین آپریشن کے آپریشنل کمانڈر فدائی سلمان حمل عرف نوتک اپنے براہوئی پیغام کے آخر میں ایک شعر کہتا ہے کہ “ہی کہوٹ انت ہی دوراہ ہر اسٹ ٹی ہریٹ” یعنی “مجھے موت کیا آنی ہے، میں تو ہر ایک میں زندہ ہوں۔” سوال چند فدائی حملوں کی نہیں ہے، سوال ان کی موجودہ کامیابی یا ناکامی، بہتری کی گنجائشوں، مضبوطی و کمزورویوں کی نہیں ہے بلکہ اصل بات، بلوچ نوجوانوں کی شعور کی اعلیٰ سطح، فکری کی گہرائی اور بہادری ہے۔ یہی سوچ ہی بلوچ کے روشن مستقبل کی نوید اور دشمن کے لیئے خطرے کی دستک ہے۔

ہر قابض و فاتح کے لیے مقبوضہ و مفتوحہ سرزمین کے باسیوں خاص طور پر نوجوانوں کا شعور و سوچ ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی لیئے نظام تعلیم کو کالونائز کرنے سے لیکر کلچرل حملے کرنے تک کا مقصد اسی سوچ کو مسخ کرنا ہوتا ہے۔ جب نوتک جیسے نوجوان قومی افق پر ایسے عظیم سوچ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں تو یہ مرگ دشمن کے سوا کچھ نہیں۔

شہید نوتک عمیق جذبات رکھتا تھا، لیکن وہ ہرگز ایک جذباتی نوجوان نہیں تھا، وہ زمینی حالات، مادی حقائق اور ان سے جڑے تقاضات سے بخوبی آگاہ تھا اور انہی زمینی حقائق کے بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ “میں تو ہر ایک میں زندہ ہوں” نوتک ایک غیر معمولی انسان تھا، وہ جانتا تھا کہ اسکے لہو سے شجرِ وطن کی پیاس ایسے بجھے گی کہ کئی نوتک اس شجر کے ٹہنیوں پر کھلیں گے۔

بلوچ غلامی اور جدوجہد کا ایک دور ایسا بھی تھا جب نوجوان نالی، گٹر، بجلی، کھمبے، نوکری، چندے، ہاسٹل، لوکل سرٹیفکٹ، شناختی کارڈ، ذکوات فنڈ کے لیئے تگ و دو کو بلوچ قوم پرستی اور قومی جدوجہد کا نام دیتے تھے، یعنی بلوچ نوجوانوں کی شعور و سوچ، عزم و امید اور توقعات کی سطح یہاں آکر رک چکی تھی گوکہ آج بھی کسی حد تک ایسی سوچ ضرور موجود ہے مگر ایسے عامیانہ سیاست کو نوتک جیسے دیوہیکل جہدکاروں نے ایسے ماند کردیا کہ اب کوئی گٹر نالی والا یہ کہنے کی کم از کم جرئت نہیں کرسکتا کہ میں قومی سیاست کررہا ہوں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی میں جب قومی پرستی کے نام پر چاپلوسی و ٹھیکیداری اور کاٹن، شراب، شباب کے لیئے تگ و دو کرنے والوں پر نوجوان تنقید کرتے اور آرام پسندی کی سیاست سے خود کو کنارہ کش کرکے حقیقی قوم پرستی و قومی آزادی کی جانب مائل ہوتے، خواری کش حقیقی قوم پرستی کی وکالت کرتے تو اس وقت بھی انہیں جذباتی، مہم جو، رومانیت پسند اور سر پہاڑ سے ٹکرانے والا کہہ کر بیوقوف قرار دیا جاتا اور آرام پسند، چاپلوس، زبانی جمع خرچ پر گذارہ کرنے والوں کو سنجیدہ، دوراندیش اور شعوری سیاست کا نام دیا جاتا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ایسے چاپلوسوں اور چکنی چوپڑی باتیں کرنے والوں کی کلی کھل گئی اور سیاست کی دکان بند ہوگئی اور یہ امر کھل کر واضح ہوگئی کہ اس غیر فطری ریاست میں حقیقی قوم پرستی کا راستہ مسلسل جفا کش جدوجہد اور قربانیوں کے لامتناہی سلسلے سے ہی ہوکر گذرتا ہے۔

لیکن شومئی قسمت کہ وہ بیورکریٹک سوچ آزادی پسندوں میں بھی سرایت کرگئی، وقت گذرنے کے ساتھ ایک ایسا طبقہ تخلیق ہوگیا جو آزادی پسندی کے نام پر ذاتی و مادی مفادات، بیورکریٹک سوچ، جنگی منافع خوری کی تگ و دو، ویزہ پالٹکس، قومی آذادی کی مسلح جدوجہد سے انحراف، دشمن کی خوف کو سنجیدہ، شعوری، معتبرانہ سیاست قرار دینے لگی۔ اب یہی طبقہ نوتک جیسے بلوچ فدائین، سرمچاروں، جانبازوں، جفاکش جہد کاروں اور شہیدوں تک کو مہم جو، احمق، جذباتی، جاہل، غیر سنجیدہ اور استعمال ہونے والے بے شعور لڑکے کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور ماضی کی طرح آج جو عیش کش ہیں، جو بس آرام دہ کمروں میں باتوں کے ہوائی تیر چلارہے ہیں، جو چکنی چوپڑی باتوں اور لایعنی زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں، آج سنجیدہ، باشعور، سیاسی، دانشور اور پتہ نہیں کیا کیا خود ساختہ القابات کے مالک ہیں۔

اس سے بڑھ کر میرے خیال میں بے شرمی کی کوئی بات نہیں۔ اس وقت بی این پی و نیشنل پارٹی اور ان کے طلباء ونگ تک ان سے بہتر ہیں کیونکہ ان سے ہزار اختلاف صحیح، یہ بھی سرمچاروں کو مہم جو، رومانیت پسند وغیرہ کہہ چکے ہیں لیکن انہوں نے آج تک میڈیا میں آکر کسی شہید کی بے حرمتی نہیں کی ہے، شاید اپنی نجی محفلوں میں کوئی کچھ بولے وہ ہمیں معلوم نہیں لیکن بلوچ قوم کے سامنے، دشمن کے سامنے پوری میڈیا میں آج تک انہوں نے کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا ہے جس سے شہیدوں کی بے حرمتی ہو، لیکن یہ جو خود کو آزادی پسند کہتے ہیں، کھلم کھلا بلوچ فدائین کو بیوقوف کہہ کر پکارنے سے نہیں کتراتے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس حد تک گِرچکے ہیں۔

اگر تحلیل نفسی کرکے دیکھا جائے کہ طبقہ پیدا کیسے ہوتا ہے اور اس طبقے کو ہمیشہ ایک چھوٹے یا بڑے حلقے کی طرف سے تائید کیوں ملتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ داریت پر مبنی سماجی و معاشی ساخت نے دنیا کے ہر چیز کے اندر کاروباری عنصر پیدا کردیا ہے۔ چاہے کیوں نا وہ جنگ، نسل کشی، قحط اور بھوک ہو۔ اسی لیئے یہ فطری امر ہے کہ بلوچ کی جنگ ہو یا سیاست اس میں بھی ایسے طبقے پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہینگے جو اسے بھی کاروبار بنانا چاہینگے، اس سے ذاتی فائدہ و غرض نکالنا چاہینگے۔ اس کیلئے ہمیشہ ضروری ہوگا کہ وہ اس جاری عمل کا حصہ اور متعلقہ بھی نظر آئیں تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کریں، اور انکےلیئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس حد تک حصہ رہیں جہاں انکو ذاتی جانی و مالی نقصان کا اندیشہ نا ہو اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ کہ یہ جنگ قومی تقاضوں کے بجائے انکے مفادات کے کھینچے لائن پر گامزن ہو تاکہ انہیں مندی کا سامنا نا ہو۔ اسکیلئے وہ کمال مہارت سے اپنے مفادات کے لائن کی ایسی تشریح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ قومی تقاضے نظر آئیں اور انکے گرد جو حلقہ ہوتا ہے وہ نظریاتی کامریڈوں کا نہیں ہوتا بلکہ شریکوں کا ہوتا ہے، جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں اور یہ حلقہ بآسانی کاروبار میں مندی دیکھ کر یہاں سے وہاں پلٹنے میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ اب حیرت بھی نہیں ہوتی کہ جب ایسے لوگ کسی پاگل کو خود کو سر میں گولی مارکر دیکھیں اور اسے بیوقوف کہہ کر پکاریں۔ “بیوقف نوتک، اچھا خاصہ کما سکتا تھا، لیکن جوانی میں خود کو ماردیا”

کیا بدبختی کا مقام ہے کہ چار کتاب رٹنے، سیاق و سباق کے بغیر دانشوروں کے قول نقل کرنے، مقصد عزائم، پس منظر سمجھے بغیر گوگل کرکے عالمی قوانین کاپی پیسٹ کرنے والے لیڈر، دانشور، قانون دان، صحافی، سفارتکار، باشعور و سنجیدہ معتبر انسانیت و انسانی حقوق کے علمبردار بن جاتے ہیں۔ لیکن قوم و وطن کے نبض پر ہاتھ رکھ کر ٹوٹے چپلوں چلنے والا، شعور کی اس سطح پر پہنچنے والا کہ خوشی سے جان دے دے، اپنی مٹی پڑھنے والا، قوم دیکھنے والا، حال پرکھنے والا، ماضی سے سیکھنے والا، مستقبل کے اندیشوں کو جینے والا جاہل، بے وقوف، جذباتی، غیر سنجیدہ اور نا مکمل ہے اور اسے حضرات کی رہنمائی کی ضرورت ہوگی ورنہ اسے کچھ نہیں آتا۔

ہم ماضی میں نام نہاد قوم پرستوں کو کہتے تھے کہ اگر قوم پرستی، قومی آزادی کی جنگ، جذباتی، غیر سنجیدگی مہم جوئی ہے تو پھر کیا نوروز خان، سفر خان، اسد جان، حمید جان، مجید جان، لونگ خان بھی جذباتی و مہم جو تھے؟ ان کا بھی دلیل یہ تھا اس وقت جنگ کی ضرورت تھی، ابھی دنیا جنگ نہیں چاہتی ہے، دوسرا دلیل یہ ہوتا تھا کہ وہ صرف فوج کو مارتے تھے، پنجابیوں اور بلوچ مخبروں کو نہیں مارتے تھے، وہ بسوں، ٹرینوں پر حملے نہیں کرتے تھے اور آج کے نام نہاد قوم پرست نہیں بلکہ نام نہاد آزادی پسندوں کو کہتے ہیں کیا پھر اکبر خان، بالاچ خان، غلام محمد، امیر بخش، غفار لانگو، آغا محمود خان، صباء دشتیاری، درویش جان سمیت ہزاروں شہداء جذباتی تھے؟ احمق تھے؟ مہم جو تھے؟ پھر ان کا بھی جواب یہی آتا ہے کہ ابھی دنیا جنگ نہیں چاہتی یا دوسرا جواب اکبر، بالاچ، امیر بخش، ڈاکٹر خالد، درویش وہ سب عالمی قوانین کے تحت لڑرہے تھے اب عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ یقین کریں، وقت بدلتا ہے، چہرے بدلتے ہیں، بہانے بدلتے ہیں لیکن یہ وہی نام نہاد قوم پرست معذرت خواہ و ساہوکار طبقہ ہے۔

یہ دشمن بھی جان چکی ہے اور ہمیں بھی باقاعدہ شعوری بنیادوں پر علم و ادراک ہے کہ چین اور پاکستان حتی الوسع کوشش کرینگے کہ بے رحمانہ طریقے سے حقیقی بلوچ آزادی پسندی اور خاص طور پر فدائی سوچ کا بلوچ سماج و سیاست سے مکمل خاتمہ ہو لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ صرف جسمانی خاتمے سے یہ سوچ اور شعور کی سطح ختم نہیں ہوگا۔ اسی لیئے پاکستان سمیت ہر طرف سے اس سوچ کو ختم کرنے کی کوشش ہورہی ہے، گوکہ سوچ و شعور ختم نہیں ہوگا مگر ابھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ دشمن سمیت دوست نما دشمن بھی فدائی شعور و سوچ کو متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں لغو قسم کے دلیلیں پیش کررہے ہیں تاکہ نوجوان گمراہ ہوں۔ کبھی تامل کا مثال، کبھی جھنگوی کا مثال، کبھی طالبان کا مثال، کبھی پروکسی کا لیبل وغیرہ۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ جب قومی جنگ شدت اختیار کرکے انکے ذاتی و مادی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہوگا بلکہ انکے ذاتی مفادات کے سامنے رکاوٹ ہوگی تو وہاں مخالفت، نقطہ چینی، حتیٰ کہ دشمنی تک پہنچ سکتے ہیں۔ آج وہی صورتحال پیدا ہوچکی ہے، آپ یاد رکھیں، آگے چین و پاکستان سمیت جنگ مخالف، فدائین مخالف تمام کے تمام ایک پیج پر ہوکر جنگ کے خلاف مورچہ زن ہونگے۔

اگر آزادی پسندوں میں دانستہ یا نا دانستہ، شعوری یا لاشعوری، بغض، انا، ضد، خوف، جو بھی جس وجہ سے جنگ مخالف رجحانات پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے یہ رجحانات آگے چل کر انتہائی خطرناک شکل اختیار کرینگے اور ان سے دشمن بھرپور فائدہ اٹھائیگا کیونکہ نفرت، بغض، مخالفت جب موجود ہو پھر چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کے لیئے دشمن ویسے بھی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔

سابقہ تجربات ہمارے سامنے ہیں لیکن اب چین و پاکستان کے لیے جتنا زیادہ فدائی حملے خطرہ اور چیلنج ثابت ہونگے، وہ اس حد تک ایکشن و منصوبہ بندی کرتے رہینگے تاکہ یہ سوچ و شعور مزید پھیلنے اور اجاگر ہونے سے رہے اور وسعت اختیار نہ کرے۔ قتل و غارت و نسل کشی کی شکل میں، منفی پروپگنڈوں کی شکل میں، لالچ و مراعات کی شکل میں، فدائین کو متنازع بنانے کی شکل میں وہ ہر ایک حربہ آزمائیں گے تاکہ سلمان حمل جیسے نوجوانوں کی سوچ و شعور دوبارہ ہر ایک میں پیدا نہیں ہو۔

لیکن دشمن جتنی کوشش کرلے، طالع آزما جتنا جتن کرلیں، شہید کے آخری لمحوں کی سانسوں کی لڑی کی خوشبو سے، مائی کلانچی کی سرزمین پر پڑے ہوئے لہو کی چھینٹوں سے بہادر اور غیرت مند بلوچوں کے ضمیر پھر بھی خاموش نہیں ہونگے، باقی میرے قلم میں وہ سیاہی نہیں اور کاغذ میں وہ طاقت نہیں اور ہاتھوں میں وہ سکت نہیں کہ میں مزید سلمان حمل کے کردار و افکار اور ہمسفری پر کچھ لکھوں، معذرت میرے نوتک۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔