سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 39 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

620

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچ مائتھالوجی اور ہنگلاج ماتا مندر – (بلوچ آزمانک)

جغرافیائی طور پر ہم بتاچکے ہیں کہ ہنگلاج ماتاکا یہ تیرتھ استان بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی لیاری تحصیل کے دور دراز اور دشوار گزارکوہستانی علاقے میں ایک تنگ درے میں ہے۔ آپ پہاڑی دریا (بارشوں کی عدم موجودگی میں بھی ایک ندی جتنا رواں پانی) کے کنارے چلتے جائیں، اور اچانک سامنے گیٹ لگا ملے گا۔ اندر داخل ہوں تو عبادت گاہوں کی ایک قطار ملے گی۔ وہاں لگا ہوا بڑا نیلا بورڈ یوں کہتا ہے:

”جئے ماتا دی۔ ہنگلاج مندر لسبیلہ شیوا میں۔مُکھی شام لال لاسی“۔
(مجھے مکھی شام لال کے ساتھ لفظ لاسی بہت اچھا لگا۔ مجھے بگٹی اور ڈومبکی ہندو اچھے لگتے ہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ اپنا قبیلہ بھی لکھتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے چاہتا ہوں کہ بلوچ ہندو، بلوچ سید، اور بلوچ آرٹسٹ (لوری، لوڑی، ترکھان، جت، مریٹہ) کو اپنے نام کے ساتھ اپنا قبیلہ ضرور لکھنا چاہیے۔ اس شناختی علامت کے ساتھ وہ کوئی مساوات تو نہ پائے گا لیکن رفتہ رفتہ کمیونٹی میں ضم ہونے میں آسانی ہوگی)۔

یہاں آتے ہی سب سے پہلو ہنومان کا مندر ملے گا۔ چھوٹا گیٹ ہے، اندر داخل ہوں تو ہنومان کے بت رکھے ہیں مختلف پوز میں۔ پوسٹر، جھنڈے، سندور، تیل کا چراغ…………

یہاں سے، نکلیں آگے بڑھیں اور ندی کنارے درے میں چلتے جائیں۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑی غاروں میں مختلف عبادت گاہیں ہیں۔
جھنڈیوں پوسٹروں سے لدی پھندی ایک چھوٹی غار میں ایک عجب منظر ہے۔ ایک عورت نما لاش پڑی ہے اُس پہ (دس ہاتھوں والی، ہار پہنی) ایک اور خاتون کھڑی ہے جس نے اپنا ایک پاؤں اُس کی لاش پر رکھا ہوا ہے، بالکل سلطان راہی کی فلموں کے طرز پر۔ اُس نے ایک ہاتھ میں ایک مرد کا کاٹا ہوا سر بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔ باقی نو ہاتھوں میں بھی دوسری کئی باریکیاں ہیں۔ اوراس کے ساتھ بورڈ پہ لکھا ہے:”ماں کالی“۔

ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ کالی جو اپنے جنگی کارناموں کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہ اپنے خاوند شیودیو کے بالکل شایان شان ہے۔اُسے سانپ کے بالوں اور خوف و دہشت کی ہر خصوصیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس نے ایک مرتبہ ایک راکھشس پر فتح حاصل کرلی اور اس فتح سے اتنی خوش ہوئی کہ اس نے انتہائی زور سے ناچنا شروع کر دیا۔ جس سے زمین کی بنیادیں تک ہل گئیں۔ اور بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے۔ جب اس نے دیکھا کہ مُردوں میں اس کا شوہر شیو دیو بھی شامل ہے تو وہ بہت دہشت زدہ ہوگئی، اس نے بہت زیادہ لمبائی میں اپنی زبان نکالی اور بت کی طرح بے حس و حرکت رہ گئی۔ اسے اسی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

”مشکی“ رنگت کا ہمارا خارانی دوست ضیا شفیع اور اُس کا کیمرہ بردار موبائل اگر ساتھ نہ ہوتے تو ہم ہنگلاج آزمانک کی بھول بھلیاں نہ یاد رکھ سکتے تھے اور نہ اُن پر یہ رپورتاژ لکھ سکتے تھے۔ دلچسپ آدمی ہے ضیا شفیع۔ ہمہ وقتی بڑھتی ہوئی نا مکمل خواہشوں سے بھرا ہوا اُس کا دل اس سے حساسیت بھری شاعری کرواتا ہے تو خوش طبعی اُس کی ”سوزارنگی“ کو حسین بناتی ہے۔ جب چاہے دانش ور بن جاتا ہے اور جب ضرورت ہو خدمت ار۔ خدا اُسے اپنی اچھی بلوچیت کے ساتھ چمٹے رہنے کی توفیق دے۔

یہ مقام دیکھنے کے بعد آگے چلتے جائیے، ندی کراس کیجیے اور اب بائیں طرف وہ Shrineآئے گا، جس کے لیے ہم یہاں آئے تھے۔ یہ مقدس مقام ایک چھوٹے قدرتی غار (جُڈو) میں ہے۔ اب بدبخت شہریت کی وجہ سے اس قدرتی پہاڑی غار کی شکل بدلنی شروع کردی گئی۔ ظالمو ں نے سیڑھیاں بنا دی ہیں۔ سرخی مائل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جائیں۔ سیڑھیاں آپ کوپہاڑ پر بلندی پہ بنے ایک پلیٹ فارم تک لے جائیں گی۔ ظالموں نے ٹائیلوں والا پلیٹ فارم بنا کر اُس مقام کی اصل صورت بدل ڈالنے کی کوشش کی۔ وہاں ایک دروازہ کھڑا کردیا۔ گھنٹی (بیل پر بندھی گھنٹی (شب) سے دگنی تگنی بڑی گھنٹی) لٹکانے کی تو خیر ہے۔

حکومت بلوچستان کو چاہیے کہ وہ اس پورے اہم تاریخی اساطیری سلسلے کو اپنی تحویل اور حفاظت میں لے لے۔ اور اس میں کسی طرح کی مصنوعی تبدیلی نہ کرنے دے۔ یہ ہمارے آباؤاجداد کے زرخیز ذہنوں کی تخلیقی داستانیں ہیں، ہمیں فطرت کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کو آلودہ ہونے سے بچانا ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں، دانش وروں، آثار ِقدیمہ اور آرٹ کے شائقین اس بڑے اثاثہ کو اپنی اصل صورت میں برقرار و برجاہ رکھنے میں اپنا رول ادا کریں۔ آپ اُس پلیٹ فارم پر بیٹھیں تو آپ کو اپنے ساتھ ہی پہلو میں، چار پانچ گز کا ایک غار نظر آئے گا۔ یہی ہے، Shrine۔ وہاں بڑا فقیرنارنجی رنگ کی پگڑی پہنے بیٹھا ہے۔ قمیص شلوار میں۔ یہ سندھی بولنے والاہے۔ اصل فقیر چھٹی گیا ہوا ہے اور یہ اُس کا replacement ہے۔

وہیں اُس کے پیچھے بائیں طرف بالٹیاں رکھی ہوئی تھیں، کچھ ڈبے اور راشن پانی رکھا ہے۔ اُسی غار یا جڈو کے فرش پر پہاڑ ہی سے پاروتی پری کا سر بنا ہوا لیٹا ہے۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ انسان کا بنایا ہوا پاروتی کا بت نہیں ہے۔ بلکہ یہ اُس پہاڑی غار کے فرش پہ ایک ابھرتی ہوئی قدرتی صورت ہے۔ جیسے ایک خاتون سوئی ہوئی ہو۔ اُس کا سر، ناک کا ابھار اور ناک کے دونوں اطراف چھوٹے گڑھے آنکھوں کی صورت ہیں۔ پتھر سے بنا، لیٹا ہوا، قدرتی انسان۔ اُس کے چہرے پر ایک باریک سرخ کپڑا چُست انداز میں بچھایا ہوا ہے۔ جہاں سے ناک کا ابھار صاف نظر آتا ہے۔

اس مورتی والے پتھر اور آس پاس پہاڑ کو سندور سے سرخ کردیا گیا ہے۔ اگر بتیوں کے گچھے ہیں۔ عجیب الخلقت جانوروں کی تصاویر کے پوسٹر لگے تھے، جن پہ ہار پہنا رکھے تھے۔ روایتی ترشول وہاں فکس تھا۔ آس پاس جھنڈے بینرز تھے، پینا فلکس تھے۔ سب زیادہ تر تاریخی رنگ کے۔ یوں اس مقام کا قدرتی حسن فوت ہوچکا ہے۔اور دیوی دیوتاؤں کے ہیبت ناک واقعات سامنے موجود ہوتے ہیں۔

اسی پلیٹ فارم یعنی مجسمے کے نیچے نیم دائرے میں کھدی ایک اندھیری سرنگ ہے۔ جس میں لوگ رینگتے رینگے گھٹنوں کے بل نیم دائرہ کے ایک طرف سے جاکر دوسری طرف سے نکلتے ہیں۔ اسے ”گربھ گپھا“ کہتے ہیں۔ زرد پٹکا پہنے گائیڈ نے اُسے ”ماتا کا گربھ“ کہا تھا، یعنی ماں کا پیٹ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس تنگ و تاریک دس بارہ گز کے نیم دائرہ نما غار میں سے ہو آئیں تو سمجھیں آ پ کے سارے سابقہ گناہ ختم ہوگئے ہیں۔ اور آپ ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے ابھی ابھی پیدا ہوئے ہوں۔

اس مراد مند سرنگ میں خواہشیں رکھنے والے لوگ گھٹنوں اور پیٹ کے بل رینگتے باہر آتے ہیں …………۔

یہ الگ بات ہے کہ سرنگ بازی کرتے وقت میری عینک وہیں گپھا میں گر گئی۔ کم زور عقیدے کا مالک، میں بہت خوش تھا کہ گپھا میں میری عینک گم نہیں ہوگئی بلکہ اُسے تو، ستی پری نے رکھ لیا۔ اب بس میری نظرخود بخود ٹھیک ہوجائے گی اور عینکوں کی ضرورت نہ رہے گی۔ مگر ایسی کوئی کرامت میرے ساتھ ہوئی نہیں۔ مجھے توا لٹا جئیند خان کی عینک ادھار لینا پڑی گوادر تک۔ مگر وہاں بھی دکانوں میں نئی عینک نہ ملی، لہٰذا وہاں سے کوئٹہ تک میں ’اُدھار آنکھوں‘ سے دیکھتا رہا۔

میں نے دل میں طے کر لیا کہ میں سائنس کی دنیا کا فرد ہو کر بھی اِس علاقے اور اِن اساطیری مقامات کی عزت کرتا رہوں گا۔ بھئی یہ ہمارے ادب، ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ میں اسے ”آؤٹ ڈیٹ“ کہہ کر اپنے آباؤ اجداد کو مسترد نہیں کرسکتا۔ انہوں نے عالم گیر صداقتوں کو پہلی بار بطور علم کے پہنچانے کے واسطے مائتھالوجی بنائی اور پانچ چھ ہزار سال قبل ہمیں بتایا کہ ”خیر“ کے واسطے جدوجہد کرنے والوں کو عوام کی طرف سے پانچ ہزار سال بعد بھی یاد رکھا جاتا رہے گا۔ آباؤ اجداد نے اپنے زمانے کے اہداف، خوفوں، آرزوؤں کو مجسم شکل دینے کے لیے جو کہانیاں بنائیں، ہمارے عوام اب تک انہیں یاد رکھتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔