ریاستی پالیسی کے تحت بلوچ طلباء کو قتل کیا جارہا ہے – ماما قدیر بلوچ

161

بلوچستان میں قبضہ گیر اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی قبضے کو طول دینے کے لیے تشدد کے ذریعے بلوچ پرامن جدوجہد کو ختم کرنے کے غیر انسانی حرکتوں پر عمل پیرا ہے۔ تشدد کرو، مارو اور پھینک دو کی پالیسی کے تحت سن 2000 دے اب تک ہزاروں لاشیں پھینکی جاچکی ہے۔

ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم کی احتجاجی کیمپ میں کیا جبکہ اس موقع پر لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے ماہ رنگ بلوچ، حمید نور، نوشکی سے اللہ بخش اور نورالدین بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کیا۔

وی بی ایم پی کے احتجاج کو 4039 دن مکمل ہوگئے۔ وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ گھروں پر ریاستی فورسز کی یلغار معمول کی بات بن چکی ہے، بلوچ طلباء کی فورسز کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، بلوچ خواتین بھی ریاستی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں اور کئی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ ریاستی پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ آج ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم قتل بھی ہوتے ہیں، جیل زندانوں میں اذیتیں بھی سہتے ہیں، وہ قتل کرتے ہیں، ظلم بھی کرتے ہیں لیکن جیل جاتے ہیں اور نہ ہی انہیں سزا ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کس نے حق دیا ہے ان مظالم کیلئے، ہماری دولت سے بندوق اور توپیں خرید کر ہمیں ہی مارا جاتا ہے۔