سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 35 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

358

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچ مائتھالوجی اور ہنگلاج ماتا مندر – (بلوچ آزمانک)

اور یوں، آپ اچانک اُس گیٹ پر پہنچتے ہیں جس پر لکھا ہے: نانی مندر، ہنگلاج کا مندر۔ اور آس پاس سرخ، نارنجی جھنڈے ہیں، بینرزپوسٹرز ہیں۔

یہ مندر ہے، مزار ہے، تاریخی مقام ہے یا عبادت گاہ، تاریخ ابھی تک فیصلہ نہ کر پائی۔ شاید انگلش کا Shrine لفظ ہی درست ہو۔مزار، آستانہ……

کبھی کبھی اتاہ بے بسی میں میں اپنا ہی نچلا ہونٹ کاٹتا ہوں۔ بلوچ دنیا کی بے بس ترین قوم ہے۔ اُسے تین سو سال سے گردن پہ لات رکھ کر معاشی وسائل، سیاسی و جغرافیائی آزادی جیسی (لازمی اور اشرف المخلوقاتی) سیاسی باتوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اور جواں مردمی اور انسانیت بھری اپنی اِن چھ نصف صدیوں میں اُسے اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ وہ ثقافتی طور پر کس قدر لٹ چکا ہے۔ دنیا تو کیا خود اُس کے بچوں کو بھی معلوم نہیں کہ اس کی سرزمین پانچ کروڑ برس قبل کی خشکی والی وہیل مچھلی ”روڈھوسی ٹس بلوچستانی سس“ کی مسکن ہے۔ ساڑھے تین کروڑ سالوں سے بلوچی تھیریم اُسی کے سینے میں دفن ہے۔ نیز اُسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ ساری مائتھالوجی دراصل اُس کی ہے جس کو غیر محسوس طو رپر اُس سے چھین لیا گیا ہے اور اُس پر بعد میں ایک پورا مذہب (ہندو مت) کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچ مائتھالوجی کے سرچشمہ یعنی ہنگلاج کے بارے میں ہماری قوم کی معلومات صفر ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان پورے ہندوستان، سری لنکا، اور نیپال کی زیارت گاہ ہے۔ کیسے خود کو بتایا جائے کہ شیو، ستی، گنڑیش، وشنو، یہ سب دیو، یہ سب پریاں بلوچستان سے ہیں۔

مائتھالوجی کیا ہے؟۔ یہ یونانی لفظ myth ہے جس کا مطلب ہے: داستان، فوک کہانی، …………۔بلوچستان کی ہر وادی ایک مائتھالوجی کی نرم و آرام دِہ گود ہے۔ اس کا ہر پہاڑ ایک داستان اپنے سینے میں دفن کیے بیٹھا ہے۔ اس کا ہر دریا ایک سولائزیشن کا خالق ہے اور اس کا ہر درہ ایک ناول ہے۔ بلوچستان قصہ خوانی کی کتاب ہے۔

بلوچ مائتھالوجی ہماری قوم کی تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے۔ ایسے قصے اور داستانیں جہاں فطرت کو، فطرت کے مظاہر کو، دیوؤں پر یوں کو، اورمافوق الفطرت انسانوں کو جسم کی صورت دی جاتی ہے۔ اُن سے کہانیاں اور قصے بنتے ہیں، ہمارے آبا نے اپنی رسموں کو تاریخی واقعات بنا کر بہت رنگین انداز دے کر پیش کیا تھا۔

دوسرے لفظوں میں ہماری قوم فطرت، تاریخ اور رواجوں کی وضاحت کے لیے ہزاروں برسوں سے جو کہانیاں بناتی رہی ہے، اُن کے مجموعے کو بلوچ مائتھالوجی کہتے ہیں۔ بدقسمت ہے وہ قوم اور وہ زبان جس کی اپنی مائتھالوجی نہ ہو۔

واضح کرنا ضروری ہے کہ مائتھالوجی کا مذاہب سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے………… انسان کی ترقی کے لیے میتھالوجیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

یہ بات بھی واضح کردینی چاہیے کہ بلوچستان مائتھالوجیوں کی ”ماں“ ہے۔ یہ بھی، کہ یہاں کے مائتھالوجی منظم مذہبوں یعنی یہودیت، مسیحیت، ہندومت، اسلام اور بدھ مت آنے سے ہزاروں سال پرانے ہیں۔

ہم یہ ذکر صرف بلوچستان میں موجود ہندو بلوچوں کے لیے نہیں کر رہے، اس لیے کہ ہندو مت تو ابھی تک مکمل طور پر ایک منظم اور واحد مذہب بناہی نہیں ہے۔ ہم توہندو مت سے بھی ہزاروں برس قبل والے بلوچستان اور اس کے اساطیر کی بات کررہے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنی اُس تاریخ کے ضمن میں بات کر رہے ہیں، جس سے ہم بلوچ، ہزاروں سال پہلے گزرے۔ ہماری مائتھالوجی کوئی خاص مذہب نہ تھی اور نہ ہی منظم انداز میں ایک مذہبی خانے میں فٹ آتی تھی۔ یہ قصے تو سخت حالات میں رہتے ہوئے انسان کے ایسے سہارے تھے، جو دنیا کی ہر جگہ اور ہر علاقے میں معمولی فرق کے ساتھ موجود ر ہے ہیں۔ اور یہاں تو ہم حضرت یسوع کی پیدائش سے بھی تین چار ہزار سال قبل کی بات کر رہے ہیں۔

ہنگلاج ماتا کا یہ مندر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے لیاری تحصیل کے دور دراز اور دشوار گزار کوہستانی علاقے میں ایک تنگ گھاٹی میں ہے۔ یہ مندر ایک چھوٹے قدرتی غار (جُڈو) میں ہے۔ یہ دیوی کا، انسان کا بنایا ہوا بت نہیں ہے۔ بلکہ یہ اُس غار کے فرش کے پتھر میں ایک ابھرتی ہوئی صورت ہے۔ جیسے ایک خاتون سوئی ہوئی ہو۔ اُس کا سر، ناک کا ابھار اور ناک کے دونوں اطراف چھوٹے گڑھے آنکھوں کی صورت ہیں۔ پتھر سے بنا، لیٹا ہوا، قدرتی بت۔

یہ پورے ہند وستان میں بالخصوص کلدیوی، کھشتر یہ اور دیگر ہند وگروہوں میں مشہور ہے۔ یہ ہند وستان، پاکستان اور دنیا کے دیگر ملکوں کے ہندوؤں کی ایک مقدس زیارت گاہ ہے۔ یہاں اپریل میں چار روزہ زبردست میلہ ہوتا ہے۔ میں سوچتے ہوئے حیران ہوتا ہوں کہ دیومالائی بلوچستان کے حسن و موسیقیت میں کیا اضافہ کیا جاسکتا ہوگا، خواہ وہ موسیقی بھجن ہی کیوں نہ ہو۔ بلوچستان کی خاموش نبض اپنے اندر کس قدر متنوع نبضیں رکھتی ہوگی، ابھی اور عیسوی ملینیم چاہئیں اندازہ کرنے کو۔ بھجن تو اُس مدہم و ملائم و نیم روشنی اور روحانیت کو خوب بے آرام کرتا ہے جو ازل سے یہاں موجود ہے۔ انڈیا، نیپال اور دنیا بھر سے ہندو زائرین آتے ہیں۔ شاہ لطیف سے لے کر ہندوستان کے طاقت ور وزیر خارجہ جسونت سنگھ (جنوری2006ء) تک صدیوں سے لوگ زیارت کرنے آتے ہیں۔ چنانچہ ہنگول پارک ایسا ٹورازم سپاٹ نہیں جہاں آپ لوگوں کو بلائیں۔ یہاں تو آٹؤمیٹک طور پر لاکھوں ہندو زائرین نے آنا ہوتا ہے، مذہبی لزومیت کے سبب۔ لہٰذا اُسے پرکشش بنائیں یا نہ بنائیں اُسے تکالیف و پریشانیوں سے مبرا علاقہ بنا دیں۔ ویسے یہاں ہم نے اچھی خاصی سہولتیں دیکھی بھی ہیں۔ یہاں سولر پلیٹوں کے ذریعے دن رات بجلی موجود ہے اور ایک دور افتادہ، غیر آباد علاقہ عجیب رنگوں اور مختلف طاقت کے بلبوں سے روشن رہتا ہے۔ ڈیزل جنریٹر اُس کے علاوہ ہیں۔ باتھ روم بنے ہوئے ہیں۔

ہنگلاج زیارت پیچ و ختم کھاتے بہتے پانی کے برساتی دریا کے ساتھ ساتھ بنائی گئی سڑک کے آخر میں واقع ہے۔ جس کے بعد ایک بہت بڑا پہاڑ اس ندی کو بند کردیتا ہے۔

بلوچ اُسے بی بی ”نانی کی زیارت“ بھی کہتے ہیں۔ ہمارے لوگ ہزاروں سالوں سے یہاں کی زیارت کرتے ہیں۔ سرخ کپڑے پہنے، خوشبو لگائے، چراغ جَلاتے اور شیرینی بانٹتے ہوئے۔ اور اگر آپ بلوچ کے سامنے نانی کے بجائے ہنگلاج کہہ دیں تو گویا آپ نے نام ٹھیک سے نہ لیا ہو۔ بے حد عقیدت مند ہیں بلوچ اس عظیم ورثے کے۔

یہ بی بی نانی کون ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہ اسلام سے بہت پہلے کا مظہر ہے۔ ظاہر ہے کہ ابھی دو تین ہزار سال تک تو ایسی کوئی ہستی پیدا نہ ہوئی تھی۔ یہ پانچ چھ ہزار پرانا افسانوی (آزمانکی) وجود ہے، جس کی ناز برداری آج بھی بلوچ کرتا ہے۔ نانی، یونانی دیوی انا ہیتا ہے یا پھر اناہیتا، نانی ہے؟۔ پتہ نہیں۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ بی بی نانی کی زیارت صرف ہنگلاج میں نہیں، ہمارے وطن میں یہ بے شمار جگہوں پر موجود ہے۔

چنانچہ، مہر گڑھ سے بھی قدیم تہذیب کا وارث بلوچستان مائتھالوجی کا اڈہ ہے۔………… بلوچ کو کوئی تباہی، کوئی زوال نہیں کہ ہم سب سے پاک و مقدس جگہ یعنی ہنگلاج کے مالک ہیں۔ دس دس دفعہ تباہ کردو بھی، مائتھالوجی اُسے زندہ کیے رکھے گی۔ ………… ایک دعویٰ سن لیجیے: ”بلوچ کو آپ ڈی کلچر نہیں کرسکتے“۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔