راجن پور میں قتل ہونے والے تمام افراد پہلے سے لاپتہ تھے – فاطمہ بلوچ

322

پنجگور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن فاطمہ بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا   عید سے ایک روز قبل پنجاب کے شہر راجن پور کے قریب سی ٹی ڈی نے پانچ افراد کو قتل کر کے انہیں مسلح مزاحمت کار قرار دیکر ایک بلوچ مسلح تنظیم کے رکن کے طور پر ظاہر کیا جو سراسر جھوٹ اور من گھڑت ہے،مذکورہ تمام افراد پہلے سے ہی مخلتف عسکری اداروں کے زیر حراست تھے جنہیں مخلتف شہریوں سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

 انہوں نے کہا راجن پور سے ملنے والے لاشوں کی شناخت دوست محمد بگٹی جس کو دسمبر 2019 میں کراچی سے لاپتہ کیا گیا، غلام حسین بگٹی جو اس سال فروری کے مہینے میں کندھ کوٹ سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا ہوئے، جبکہ ماسٹر علی بگٹی جو کہ پیشے کے لحاظ سے معلم تھے کو راجن پور سے سی ٹی ڈی ( کاؤنٹر ٹیر ایرازم ڈپارٹمنٹ) نے گذشتہ سال چھ نومبر کو اغواء کیا تھا جبکہ رمضان بگٹی کو گذشتہ سال جولائی کے مہینے میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے پٹ فیڈر سے ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس کے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا۔

 انہوں نے میں حکومت پنجاب، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، عدالت عظمیٰ سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس واقع کا نوٹس لیں اور ایک جوڈیشل کمیشن بنا کر واقع کی شفاف تحقیقات کی جائے کیونکہ اس طرح کے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں سے ملک میں نفرتیں بڑھے گی جس سے نقصان ملک کا ہوگا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں رہنے والے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کر کے قرار وقعے سزا دی جائے نہ کہ اس طراح قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا کر لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کردیا جائے۔ اگر اس طرح کے کے واقعات کی روک تھام نہیں کی گئی تو ہر طرف افرا تفری ہوگی اور ملک میں انتشار بڑے گا جو کسی بھی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

 آخر میں انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر تمام انسانی کے اداروں اور خاص طور پر وزیر اعلی پنجاب سے اپیل کرتی ہوں کہ اس واقعے کی تحقیقات کرائے کیونکہ آپ بھی ایک بلوچ سردار ہیں آپ کو بھی بلوچ روایات کا علم ہے تو برائے کرم واقع کی شفاف تحقیقات کر کے شہدا کے لواحقین انصاف فراہم کریں