ہارے نہیں ہیں، جنگ جاری ہے – آصف بلوچ

687

ہارے نہیں ہیں، جنگ جاری ہے

تحریر: آصف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سیاست اور سیاسی عمل مستقل مزاجی، فکری پختگی کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتی اور جو فرد مستقل مزاج نہیں ہو وہ جلد یا بدیر مایوس ہوجاتا ہے، تھک جاتا ہے، بہک جاتا ہے کیونکہ جدوجہد ایک مسلسل، مشکل اور طویل عمل ہے نتائج اور کامیابی ایک دن، سال میں حاصل نہیں ہوتی منزل تک پہنچنے کے لئے صدیوں پر محیط جدوجہد کیا جاتا ہے، نسلیں ختم ہوجاتی ہیں اور نسل در نسل قومیں اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی سربلندی کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ سیاسی اور مزاحمتی عمل میں خوش فہمیوں، امکانات کے بجائے کھٹن راہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ تحریک کے بانی نواب خیر بخش مری عمر بھر ایک راہ پر چلتے رہے، آزمائشوں سے گزرے، مشکلات کا سامنا کیا، وقتی ناکامی حصے میں آئیں، جلاوطنی اختیار کیا، پھر خالی ہاتھ لوٹ کر واپس آئے لیکن کبھی ایک سیکنڈ کے لئے مایوس نہیں ہوئے، ان کے قدم نہیں ڈگمگائے کیونکہ وہ اپنے نظریہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے خود مستقل مزاجی، مضبوط اعصاب کے ساتھ اپنے نظریہ اور موقف پر قائم رہے بلکہ بلوچ قوم کا حوصلہ بلند رکھا وہ کہتے تھے ہارے نہیں ہیں جنگ جاری ہے۔

آج نواب مری جسمانی طور پر موجود نہیں ہے لیکن ان کا نظریہ اور تعلیمات ہماری رہنمائی کررہے ہیں، نواب مری کی افکار پر عمل پیرا ہوکر استاد اسلم بلوچ نے اس جنگ میں ایک نئی روح پھونک دی انہوں نے مایوس نوجوانوں کو حوصلہ دیا اپنے فرزند ریحان جان کو قربان کرکے کمزور حوصلوں کو ایک بار پھر مضبوط بنانے کی بھر پور کوشش کیا، ریحان کی قربانی بلوچ مزاحمتی تحریک کے لئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔ لیڈر اور رہبر کبھی مایوس نہیں ہوتے نہ اپنے قوم اور فالورز کو کسی موڑ پر مایوسی کا شکار بننے دیتے ہیں بلکہ وہ اپنی مستقل مزاجی،ثابت قدمی، حکمت اور بردباری سے راہیں متعین کرتے ہیں۔

نواب خیر بخش مری اور استاد اسلم بلاشبہ قومی لیڈر تھے، جنھوں نے چھوٹے سے چنگاری کو بجھنے کے بجائے آگ میں تبدیل کرکے بلوچستان بھر میں پھیلایا ان عظیم رہبروں کی انتھک محنت، قربانیاں اور جہد مسلسل کی وجہ سے تحریک تسلسل سے آگے بڑھ رہی ہے۔ استاد اسلم بلوچ نے مزاحمت کے جو اصول بنائے اور نئی جہتیں متعین کئے اور مزاحمتی تحریک کی ازسر نو صف بندی سے نوآبادیاتی قبضہ گیر پاکستان اور سامراجی توسیع پسند چین کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ دالبندین میں چینی انجنیئروں، کراچی میں چینی قونصلیٹ، گوادر میں پی سی ہوٹل میں مقیم پاکستانی و چینی سرمایہ کاروں اور کراچی میں چین و پاکستانی کی معاشی حب اسٹاک ایکسچینج پر حملہ دراصل سامراجی و نوآبادیاتی قبضہ گیروں کے شہہ رگ کاٹنے کے مترادف ہے۔ ان حملوں کو ناکام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جو اہداف حاصل کرنا مقصود تھے یا چین سمیت دنیا تک جو پیغام پہچانا تھا وہ پہنچ چکا ہے۔ اگر یہ حملے ناکام تصور کئے جاتے تو پاکستان اور چین کی یہ اضطرابی کیفیت نہیں ہوتی سی پیک منصوبے کے بہت سے منصوبوں پر کام نہیں روکا جاتا اور چین کا وسیع بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ سست روی کا شکار نہیں ہوتا۔ کچھ کاروائیوں کی کامیابی کا تعین وقتی طور پر کیا جاتا ہے اور کچھ کاروائیوں کے اثرات طویل عرصے کے بعد ظاہر ہوتے ہیں،حاصل بزنجو سمیت دیگر ریاستی گماشتے و کاسہ لیس پریشان ہیں کہ بلوچ تحریک کیا رخ اختیار کررہی ہے، کچھ عرصہ قبل یہ اندازوں پر تجزیہ کرتے تھے کہ بلوچ قومی تحریک ختم ہورہی ہے اور مزاحمتی عمل دم توڑ رہی ہے لیکن ان کے یہ تجزیئے غلط ثابت ہوگئے اور ان گماشتوں کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ فدائی حملے ہونگے۔

ان حملوں کی اثرات مستقبل قریب میں واضح انداز سے ظاہر ہونگے۔ اقوام متحدہ، امریکا اور دیگر ممالک اپنے مفادات کے پیش نظر روایتی طور پر مذمت کرتے رہتے ہیں لیکن کسی تحریک میں یہ نہیں ہوا ہے کہ کوئی ملک مذمت کرے تو تحریک ختم ہوجائے یا مسلح کاروائیوں کا سلسلہ رک جائے، طالبان کو اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا نے دہشت گرد قرار دے دی تھی لیکن آج انہی دہشت گرد طالبان کی قوت کو تسلیم کرکے امریکا ان سے امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہے، اس سے یہ بات اخذ کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنی بازووں کی طاقت سے منوایا جاتا ہے۔ جب بلوچ قومی تحریک موثر قوت کے طور پر سامنے آئے گی تو یہ اقوام متحدہ اور یہ عالمی طاقتیں خود بخود بلوچ تحریک کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونگے اور یہ مذمتی بیانات کو حمایتی بیانات میں تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگے گی۔ کمزور اور منتشر تحریکوں کو کوئی سپورٹ نہیں کرتا اور طاقتور اور منظم تحریکوں کو کوئی اگنور نہیں کرسکتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔