شہید شاہ زیب سے چند وابسطہ یادیں – واحد بخش بلوچ

800

شہید شاہ زیب سے چند وابسطہ یادیں

تحریر: واحد بخش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب میں قلم ہاتھ میں لیتا ہوں، سوچنے کے باوجود مجھے کچھ الفاظ یاد نہیں آتے، میں کیا لکھوں تیری یادوں کو؟ کہاں سے شروع کروں تیری بہادری کے قصوں کو؟ تمہارے سرمچاری کی تعریف کرتے میرے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں لیکن تیری یادیں ختم نہیں ہوتیں۔ بچپن سے سرمچاری تک اور سرمچاری سے شہادت کا سفر ایسا رہا کہ پل پل کایاد بھول نہیں پا رہا۔ جب میں آپ سے فون پر بات کرتا تو حوصلہ مل جاتا۔ “یہ فوجی آپریشن اور شہادتیں ہماری کامیابی کی علامتیں ہیں۔” محفلوں میں آپ بہت کم ہی بات کرتےتھے آپ کی مسکراہٹ سے محسوس کیا جاتا تھا کہ بات کرنےاور عمل کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ آپ عمل سے ثابت کرکے دکھاتے کہ میں پڑھا لکھا نہیں لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ جنگ ایک کھٹن اور مشکل راستہ ہے لیکن جنگ کے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

آپ کہا کرتے تھے اگر میں میدان جنگ میں شہید ہوا تو میرے لیے افسوس مت کرنا بلکہ میری نظریے کو زندہ رکھنا، میں ایسی باتوں کو سن کر حیران رہ جاتا کہ شاہ زیب جان تم نے ایک جماعت بھی نہیں پڑھا ایسا جذبہ اور احساس کہاں سے آیا؟ کہتے ہیں بہادر کبھی حالات کو نہیں دیکھتے بلکہ حالات کو بدلتے ہیں۔ شاہ زیب جان ایک بہادر اور محنتی انسان تھےاور حق کیلئے لڑنا بھی جانتے تھے اور حالات اپنے حق میں لاتے تھے۔

دوستوں کے دلوں میں اپنے لیے محبت پیدا کرتے تھے۔ فون پر آپ سے بات ہوتی تو کچھ نہیں بولتے، پھر کیسے یقین کروں تم اتنی جلدی اپنی ذمہ داریاں پورے کیئے بغیر چلے گئے۔ پھر ان کاموں کی ذمہ داری کس کو سونپی جوتم نے ادھورا چھوڑا تھا؟ وہ خوش قسمت کون تھا جو تم نے اپنی زبان سے منزل تک پہچانے کو کہا لیکن یہ میں ضرور جانتا ہوں کہ آپ کو اپنےشہیدوں کے لہو پہ یقین تھا، شہیدوں کا لہو کاروان کو اپنی منزل تک پہنچائیں گے۔

مختصر وقت میں اپنے لیے آپ نے ایک ایسا مقام بنایا شاید کم لوگوں کو نصیب ہوا ہوگا، آپ نے شاشان کا مقام بلند رکھا اس لیے کسی کا آئی ڈی شاشان کے نام پہ ہے تو وہ آپ کی قربانیاں تھی کہ شاشان کا سر فخر سے بلند رہے۔ اس سے پہلے شاشان کا نام شاید اتنا مشہور نہ ہوا ہو اچھے کاموں اور کرداروں کی تعریف ہر کوئی اپنے نام کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن تم تو سب سے الگ تھے تعریف کا محتاج اورنہ ہی کاموں کی تعریف کرتے کسی بھی مشکل وقت میں ہنستے ہوئے نظر آتے تھے، مشکل وقت میں آپ کو دیکھ کر دل مضبوط ہو جاتا تھا۔

شاہ زیب ہمارے ساتھ ہے، جب آپ کی شہادت کی خبر آئی آگ کی طرح پورے بلوچستان میں پھیل گیا، شاہ زیب جان گریشہ کے علاقے لوپ میں اپنے تین ساتھیوں شہید مہیم، شہید جاوید جان کے ساتھ ریاستی ڈیھت سکواڈ سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے، شاشان کا بہادر فرزند ہونے کا حق ادا کرکے شاشان کے دل بند میں شہید ہوئے، یہ ثابت کرکے دکھایا کہ میں نے شاشان کے لیے بندوق اٹھایا اور شاشان میں شہادت کا رتبہ پایا شاشان کے شہیدوں کو سرخ سلام۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔