شہید حبیب جالب کا قومی کردار اور موجودہ سیاسی تقاضے – صمند بلوچ

613

شہید حبیب جالب کا قومی کردار اور موجودہ سیاسی تقاضے

تحریر : صمند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

14 جولائی وہ سوگوار دن ہے، جب جولائی کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو دل میں بے یقینی کی ایک کیفیت سی پیدا ہوتی ہے کہ بلوچ قوم کے عظیم دانشور، سیاستدان حبیب جالب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی شہید کی فکر قوم کی اصل زندگی ہوتی ہے، شہید کے بنائے گئے سیاسی اصول ہی قوم کے سیاسی نظرئے کی بنیاد ہوتی ہے۔

شہید حبیب جالب بلوچ کا شمار بھی دنیا کے ان عظیم ہستیوں میں شمار ہوتا ہے جہنوں نے طلباء سیاست سے لیکر سیاسی جماعتوں اور ایوانوں تک میں صرف مخلصی کو ہی سیاست کا ذریعہ بنایا، کوئی بھی اسمبلی و ایوان کو جدوجہد کا صرف چھوٹا سا زریعہ تصور کیا لیکن انہوں نے اسکو کبھی مقصد نہیں بنایا کبھی مرعات کو سیاسی کلچر کا حصہ نہیں بنایا بلکہ جدوجہد ہی انکا اصل مقصد تھا اور انہوں بلوچ قوم کی شعوری رہنمائی کی۔

شہید جالب قومی سیاست کے ساتھ عوامی خدمت کو بھی اپنے سیاست کا اولین ترجیح سمجھتے تھے، انہوں نے تمام مسائل پر ہمیشہ آواز بلند کی اسمبلی فورم سے لیکر پریس کلب و مظاہروں میں وہ ہمیشہ عوامی مسائل پر پیش پیش رہے۔

شعبہ تعلیم میں شہید جالب نے اپنے زمین کو گرلز اسکول میں تبدیل کیا، جہاں وہ طالبات کو یونیفارم اور کاپیاں و دیگر ضروریات اپنے جیب سے دیتے تھے، وہ خواتین کی سیاست میں باشعور شرکت داری کو حوصلہ افزاء سمجھتے تھے۔

گلزمین بلوچستان کی جدوجہد میں ہزاروں شہداء کے بدولت قومی سیاسی شعور و حقیقی سیاست میں دنیا جہاں کے ترقی یافتہ اقوام بھی بلوچ سیاست کو تسلیم کرچکے ہیں، بلوچستان کے دیگر ہزاروں شہداء نے قومی سیاست، جہد و وطن کی خاطر اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان میں سیاسی کارکنوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا جنکے شہید ہونے سے جو خلاء پیدا ہوچکی ہے جو کبھی پر نہیں کی جاسکتی۔

شہید حمید جان بلوچ، فدا شہید، شہید غلام محمد بلوچ، شہید گلزمین حبیب جالب بلوچ، مولابخش دشتی، شہید عطاءاللہ محمد زئی، نورالدین مینگل شہید، ملک نوید دہوار شہید، منظور جان و دیگر ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں کی زندگی میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ تھی کہ شہداء کبھی بھی تقسیم درتقسیم و قوم کو مزید ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے قائل نہیں تھے بلکہ اتحاد و یکجہتی کے ذریعے ہی قومی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے قائل تھے۔ انہوں نے سیاسی طریقہ کار وہ طرز سیاست پر اختلاف رکھا لیکن کبھی بھی سرکلنگ مکالمہ و عملی شعور کو کمزور نہیں ہونے دیا سیاسی اختلاف کو کبھی ذاتی انا نہیں بنایا بلکہ شدید اختلافی صورتحال میں بھی مشترکہ نکات پر جدوجہد کو مضبوط کرنے کی کوشش کی، بی ایس او میں حالیہ اختلافی صورتحال میں چیئرمین منظور بلوچ و غلام نبی مری کا سیاسی کردار سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے تمام اختلافات کے باوجود تنظیم میں ڈسپلن آئین و تنظیم کاری مشترکہ جدوجہد کی بنیاد قرار دیا۔

چیئرمین نذیر بلوچ کے قیادت میں بردباری دوراندیشی و یکجہتی و ڈسپلن کی کاوشوں سے تنظیم میں اصلاحی سیاست کو فروغ حاصل ہوئی، بی ایس او نے ہر دور میں تمام بلوچ شہداء و فکر جالب کو مضبوط کیا اور آج بلوچ نوجوان جن حالات سے گذر رہے ہیں کہ ایک جانب قومی سیاست پر تعلیمی اداروں میں قدغن طلباء سیاست کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال تعلیم ددشمن ہتھکنڈوں کے نام پر یلغار کی سی کیفیت ہے، طلباء سیاست پر پابندی عائد کرکے نوجوانوں کو لاپتہ کرکے زندان میں بند کی جارہی ہے، تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی، منشیات کلچر و منفی سرگرمیوں کو عروج دے کر نوجوان کو شعوری طور پر کمزور کیا جارہا ہے، جسکے تحت حقیقی سیاست پر مکمل قدغن کی سی صورتحال ہے، پہلے صرف تنظیموں کے درمیان سیاسی نکات پر اختلاف کی سی صورتحال تھی، مرکزی پالیسی و سیاسی فیصلے نظریاتی بحث و مباحثے کے باعث تھے لیکن اب عہدے، مراعات و لالچ سیاسی کارکن کو کمزور کررہے ہیں۔

ان حالات میں بلوچستان کے تمام سیاسی کارکنوں بالخصوص بی ایس او کے باشعور سنگتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عہدوں و مراعات کے بجائے قومی نظریے کی بنیاد پر بحث و مباحثے و تنقید برائے اصلاح کو مضبوط کرے ناکہ منفی غیر سیاسی رجحانات کے بنیاد پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنے، یقینی طور پر ہر سیاسی کارکن خود کو شہید حبیب جالب کا سیاسی و علمی وارث کہلانے کا حق دار ہے لیکن شہید جالب کے فکر کا وارث صرف وہی سیاسی کارکن بن سکتا ہے، جو کتاب قلم و سرکلر کے بنیاد پر سیاست کو مضبوط کرے لڑائی کے بجائے بحث و مباحثے کو اہمیت سے اختلاف کی بنیاد کو سمجھے اسے اپنے انا کا مسئلہ نہ بنائے، جب تک جالب شہید و دیگر قومی شہداء کے فکر کی وارثی نہیں کرسکتے اس وقت تک ہم صرف خود کو اور قوم کو دھوکہ دینگے اور نوجوان وقتی گروہ بندی کا شکار ہوکر اصل قومی سیاست سے کنارہ کش ہوتے رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔