خوشبو کا شہر،بدبو کی بستی – محمد خان داؤد

140

خوشبو کا شہر،بدبو کی بستی

تحریر : محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ایاز نے پوری دنیا کے مظلوموں اور محکوموں کے لیے کہا تھا کہ
،،جس وقت بھی کہیں، کسی کا طوق ٹوٹا
میں نے یہ جانا
میری گردن ہلکی ہوئی
اے دنیا بھر کے محکوموں!
اے مظلوموں!
اگر محکومی سے کوئی چھُوٹا
میں نے یہ جانا
میری گردن ہلکی ہوئی
کسی بھی جگہ میرے قاتل کے
اگر ہاتھ لرزے
بھلے میرا گلا وہ دبا دے
میں نے یہ جانا
میری گردن ہلکی ہوئی!،،

پر جب وہ جل رہے تھے تو ایاز کے طرز کی نظم تو کہیں سے بھی سُنائی نہیں دی۔ اور یہ بات اور انکا ایسے جل جانا اور یوں مر جانا ایسا تو نہ تھا کہ کسی کو کوئی خبر ہی نہ ہوئی ہو، اور کئی دن گذر جانے کے بعد بھی خبر نہ ہوئی ہو؟ نہیں ایسا نہیں تھا۔ جب ان پر آگ کا پہلا لپٹا پڑا تھا، تب ہی سب جان گئے تھے کہ کون کہاں جل رہا ہے! اور وہ جل رہے ہیں؟ یا انہیں جلایا جا رہا ہے؟ اگر جلایا جا رہا ہے تو کیوں؟ اور وہ کیوں اپنی زندگی میں ہی کسی ارتھی کی طرح جلائے جا رہے ہیں؟ اگر وہ جلائے جانے والے نہیں جانتے تھے، یا وہ لوگ نہیں جانتے تھے جو صبح اپنے گھروں سے چلے تھے اور اب اس گیس چیمبر نما فیکٹری میں محصور ہو کررہ رہے تھے، وہ تو نہیں جانتے تھے، وہ تو اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کسی حادثے نما دہشت گردی کا شکار ہوکر اس گیس چیمبر نماں فیکٹری میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ پر باقی سب جانتے تھے۔ وہ بھی جن کی وہ فیکٹری تھی۔ وہ بھی جو ان مالکان سے بہت سے پیسے بٹورنا چاہتے تھے، وہ بھی جو بیچ میں دلال کا کام کر رہے تھے۔ وہ بھی جو بے خبر ہوتے ہیں۔ وہ بھی جو باخبر ہوتے ہیں۔ وہ بھی جنہیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔ اور وہ بھی جنہیں سب کچھ خبر ہوتی ہے۔ وہ بھی جن کے ہاتھوں میں جدید کیمرے ہوتے ہیں اور انہیں خبر کی تلاش رہتی ہے اور وہ بھی جو اپنے دفاتر میں آخری وقت تک اپنے اخبار کے فرنٹ پیج پر بڑی خبر کی جگہ رہنے دیتے ہیں کہ کیا معلوم کوئی خبررستہ پوچھتے آجائے!،،اور اخبار میں جگہ ہی نہ ہو۔ تو اس دن جب وہ فیکٹری میں جل رہے تھے، تو سب کو خبر تھی۔

پر جلنے والوں کو کوئی خبر نہ تھی اور اب جب وہ جل گئے، تو ان کے لیے ایاز کی نظم جیسی نظم کیوں نہیں لکھی گئی؟ ایاز نے تو سب عالم کے درد کو اپنا درد سمجھا اور جہاں بھی کسی کی گردن کا طوق ٹوٹا تو ایاز نے یہ جانا کہ اس کی گردن ہلکی ہوئی۔ جب کراچی کے بلدیہ کے علاقے میں ایک فیکٹری میں کئی مزدور جل رہے تھے، تو باقی دنیا۔سندھ، پاکستان ایک طرف پر کراچی کو بھی یہ کیوں معلوم نہ ہو پایا کہ
،،جہاں بھی آگ میں
کوئی جسم جلا
میں یہ سمجھا
یہ میری ارتھی جل رہی ہے!،،

کراچی نہ ایاز کی نظم جان پایا نہ اس دنیا کا دکھ جان پایا، اور نہ ہی یہ جان پایا کہ ۰۱ ستمبر کو کون کہاں جلا؟
اس ایک شہر میں تو کئی شہر پنہاں ہیں، امیروں کا شہر! غریبوں کا شہ! عالموں کا شہر! جاہلوں کا شہر! پیٹ بھروں کا شہر! بھوکوں کا شہر! اچھے اسپتالوں کا شہر! گندے اور بند اسپتالوں کا شہر!عالیشان کوٹھیوں کا شہر! گندی بستیوں کا شہر! خوشبوں کا شہر! بدبو کا شہر! بیڈ پہ سونے والوں کا شہر! فٹ پاتھ پے پوری رات ذلیل ہونے والوں کا شہر! اور جب پر امیروں کے بچے گاڑی میں چلتے گرم یا یخ ٹھنڈے پانی سے بھری تھیلیاں مار کر مزے لیتے ہیں!ان بگڑے امیر زادوں کا شہر! اور سارے دن تھکے ہارے مزدوروں کا شہر جو فٹ پاتھ پر سورہے ہیں اور خواب میں اپنی ماں سے مل رہے ہیں! فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر کرنے والوں کا شہر! سیلانی سے کھانے کھاکر دس روپے بچانے والوں کا شہر!

ڈبل ہے استاد!آسرہ کر استاد کا شہر! اف بہت گرمی ہے ڈرائیور اے سی تیز کردو والوں کا شہر!
گانے والوں پرفیوم کی مہک والوں کا شہر! رونے والوں اور پسینے میں شرابور رہنے والوں کا شہر!

خوشبو والے شہر کے باسی نہیں جانتے کہ شہر کے اس کونے میں کیا ہوا ہے، وہ تو اپنے عالیشان گھروں میں ٹام کتوں سے کھیل رہے تھے! پر گندی بستی کے بدبو دار لوگوں کے شہر والے جانتے تھے کہ شہر کے بلدیہ کے اندر کیا ظلم ہوگیا ہے!

پر کسی فیکٹری کا جل جانا یا جلایا جانا ظلم نہیں ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ جن کے ہاتھوں۔ جن کے اشاروں، جن کے تیزابوں اور پیٹرولوں اور ہاتھوں اور تیلیوں سے وہ فیکٹری جلی تھی، وہی لوگ اس جلتی فیکٹری کے باہر امدادی کیمپ لگائے، اس پر فاشٹ جھنڈے لگائے بیٹھے تھے، اور سب اچھا ہے کا اشارہ دے رہے تھے۔
یہی ظلم تھا
اقوامِ عالم کیا، پاکستان کیا، سندھ کیا پر کراچی سے بھی وہ نظم تخلیق نہیں ہو پائی جس کا اظہار ایاز نے اپنی نظم میں کیا ہے کہ
،،جس وقت بھی کہیں، کسی کے گلے کا طوق ٹوٹا
میں نے جانا میری گردن ہلکی ہوئی!،،

حالاںکہ وہ ایسا وقت تھا کہ کراچی کو اس حادثے پر ماتم کرنا چاہیے تھا، گریہ کرنا چاہیے تھا، اور شہرِ امیر،خوشبو کے باسیوں۔ ٹام سے کھیلتے لوگوں، عالیشان گاڑیوں میں گھومتے برگر لوگوں،عالیشان کوٹھیوں میں بیٹھے افرادوں رنگوں اور خوشبوں کا مزہ لیتے لوگوں کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ جو تم یہ مزے کر رہے ہو یہ ان لوگوں کے خون پسینے کی کمائی ہے جو اس وقت بلدیہ میں سیاست کی نظر ہو کر سستے کپڑے کی طرح جل رہے ہیں، پر خوشبو شہر کے باسی نہیں جانتے تھے کہ شہر کے اس کونے میں کیا ہو رہا ہے وہ تو اپنے گھروں میں یار کے رخساروں کا مزے لے رہے تھے۔اور ان کی ایسی حالت تھی جس کے لیے فیض نے لکھا تھا کہ
،،آج بھرِ خدا ذکرِ کوءِ یار چلے!،،

وہ تو ذکرِ کوءِ یار میں تھے، ان کو کیا معلوم کہ ایک ماں کے دل کی کیا کیفیت ہے جو ابھی ابھی یہ بات جان پائی ہے کہ آگ وہاں لگی ہے، جہاں اس کا بیٹا مزدوری کو گیا تھا، کیوںکہ آگ تو شہر کے دوسرے کونے میں لگی ہے، پر وہ ماں اس آگ کی تپش اپنے سینے میں محسوس کرتے ہے اور خوشبو کا شہر خاموش جب کی بدبو کا شہر اس خبر کے بعد اپنے ہوش میں نہیں کیوںکہ خوشبو کے باسی مزدوری نہیں عیاشی کرتے ہیں، جب کہ گندی بستی کے لوگ مزدوری کرتے ہیں جب بھی انہیں روٹی اور دوا نہیں ملتی۔ابھی تو بس آگ ہی لگی تھی اور اس جلتی آگ میں کیا کیا جلنے والا تھا کوئی کیا جانے؟

پر بلدیہ سے دور کراچی کے دوسرے کونے میں ایک گندی بستی کی ماں کو لطیف دلاسہ دے رہا تھا کہ
،،ورسی وطن جائیون صحرا ستر جن
ویڑھیا گھمن ولئین جھانگی منجھ جھنگن
مون کھے ماروڑن سئین گنائے سیج مہ!،،
تم نے کہا بھوکی ہوں تو وہ گیا
تمہارے پھٹے کپڑوں سے، دکھتا تھا بدن تو وہ گیا
اب کیوں روتی ہو، نہ رو!،،

بھٹائی تو اس کے پاس اس گندی بستی میں پہنچ گیا اور اس روتی ماں کو دلاسہ بھی دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ تو تمہاری حالت دیکھ کر کچھ کمانے کو گیا تھا، اب نہیں روؤ!

پر اس ماں کے پاس وہ شہر نہیں آتا جو امیروں کا شہر ہے۔ جو اس جلتی فیکٹری کے مالکوں کا شہر ہے۔ جو ان کے بچوں کا شہر ہے جو جو مزدوروں کے پیسوں سے پلتے ہیں، اور اپنے بگڑے مُنہ سے انگریزی الفاظ ادا کرتے ہیں۔ اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں،وہ شہر اس ماں کے پاس نہیں آیا۔ جب وہ شہر ہی نہیں آیا تو ایسا مرثیہ کون لکھے جو ایاز لکھ گیا،جس میں اقوامِ عالم کی بات ہے۔
آگ لگ جانے کے بعد! آگ بجھ جانے کے بعد!

تو یہ درد ایک اور صورت اختیار کر گیا جو ہم نہیں لکھتے، کون پہنچا ایدھی کے سرد خانے؟ اور کس کو لاش ملی؟ یا سب لاوارث دفنائے گئے؟ اس بات کو کون لکھے؟

بس ایک صوفی دانشور مزدور ہے جو کبھی پاکستان کی عدالتوں میں دکھتا ہے۔ کبھی پریس کلبوں کے دروں پر! کبھی ان گھروں کے دروں پر جہاں یہ جلتے وجود مٹتے نقش لائے گئے تھے، ماں کا جی جلانے کی لیے اس صوفی کو بہت کام کرنا ہے، پر وہ اکیلا ہے۔ اس ان ماؤں کا دلاسہ بھی دینے ہے جو اب تک رو رہی ہیں۔ ان بچوں کا کھلونے بھی دلانے ہیں جو غربت میں اپنا بچپن کھو بیٹھے ہیں۔ اسے اس کیس کی پیروی بھی کرنی ہے جو اس نے ان سیٹھوں پر کر رکھا ہے جو سیٹھ جلتے وجود دیکھ کر دبئی بھاگ گئے اور پھر نہ لوٹے،اسے ابھی وہ لاشیں بھی وصول کرنی ہیں دفنانی ہیں جو ڈی این اے کی منتظر ہیں!

وہ منصور ناصر کبھی اپنی آنکھوں سے اشک نہیں بہاتا، پر جب وہ بلدیہ فیکٹری میں جلے وجود کے کسی گھر میں جاتا ہے، اور بوڑھی ماں کہتی ہے، صاحب وہ کب لوٹے گا، نہ تو میں نے اس دولہا بنایا اور نہ اپنی آنکھوں سے اسے دفن ہوتے دیکھا! تو منصور ناصر کی آنکھوں کی وہ حالت ہو جاتی ہے جس کے لیے ایاز گل نے لکھا تھا کہ
،،تنھنجی پُجانا کیر اسان جی،سپرین لھندو سار
لڑک لڑی پیا لاڑ کرے!،،
تمہارے بعد او یار، کون لے گا خبر ہماری
آنسو لڑی بن کر بہہ رہے ہیں!،،
آج اس حادثے کو پانچ سال گزر چکے ہیں۔ پر اتنے بڑے حادثے پر اس شہر کو جو رنگوں،روشنیوں،اور خوشبو کا شہر ہے۔ کیوں ترس اس شہر پر نہیں آتا جو بدبو اور اندھیارے کا شہر ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔