ریاستی عتاب کے شکار سماجی کارکن – فتح بلوچ

273

ریاستی عتاب کے شکار سماجی کارکن

 تحریر : فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے آنکھوں سے اوجھل بلوچستان اس وقت شدید انسانی بحران کا شکار ہے، بلوچستان میں سیاسی کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ، جبری گمشدگیوں کے بعد سماجی کارکنان کو پاکستانی خفیہ ادارے اغواء کررہے ہیں۔ اوست ویلفیئر آرگنائزیشن نامی ایک فلاحی تنظیم کے سیکریٹری جنرل وفا بلوچ کو 9 جولائی 2020 کو کراچی سے پاکستانی خفیہ اداروں نے اغوا کرلیا، اس کے ایک ہفتے بعد اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کے سرابرہ محمد جان دشتی اور بلوچستان کے معروف سماجی کارکن ملا لیاقت ولی کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا.

پاکستان کا سب سے بڑا (مقبوضہ) صوبہ، جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جہاں گوادر پورٹ اور سی پیک کے نام پر چین کھربوں ڈالر کا سرمایہ کاری کررہا ہے لیکن صحت کی صورتحال انتہائی بدتر ہے۔ بلوچستان میں ملیریا کے مریض تک کو بھی بہتر علاج کے لیے کراچی سندھ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

اوست ویلفیئر آرگنائزیشن مخیر حضرات اور بیرون ملک مقیم بلوچوں کے چندوں سے بلوچستان کے طول و عرض میں غریب مریضوں کے علاج کا بندوبست کرتا ہے، انکو کراچی کے ہسپتالوں میں اپنی مدد آپ کے تحت علاج کی سہولت مہیا کرواتا ہے۔

اوست ویلفیئر آرگنائزیشن نے بلوچستان میں کئی کینسر اور دیگر موزی امراض کے بیماروں کا علاج کروایا ہے، اس وقت جب اوست ویلفیئر آرگنائزیشن کے تین اہم ذمہ دار پاکستان کے خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار بنے، تو اوست ویلفیئر آرگنائزیشن نے اپنی تمام سرگرمیوں کو معطل کردیا ہے۔ اور کئی غریب مریض بے یارو مدگار علاج کے منتظر ہیں، علاج انسان کا بنیادی حق ہے لیکن پاکستان نے یہ حق بلوچ سے چیھن لیا ہے۔

شاید بلوچستان سے باہر، اگر ہم کسی اور قوم کو اپنے تعلیم صحت انفراسٹکچر کا کہانی سنائیں تو وہ اس بات کو مسترد کرے گا لیکن حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان میں آج بھی نارمل ڈیلیوری کیس میں ماں اور بچے جان سے جاتے ہیں۔

بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں لوگ ایک پیناڈول گولی کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں، اس وقت بلوچستان میں سیاسی کارکن طلباء، وکلاء، ڈاکٹرز سماجی کارکن تمام مکاتب فکر کے لوگ ریاستی دہشت گردی کے شکار ہیں لیکن بلوچستان کی آہیں فوجی پہروں میں باہر نہیں جاسکتے۔

دنیا اور پاکستان کے دیگر مظلوم قوموں کو یہ معلوم نہیں کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑے احتجاجی کیمپ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں 2036 دنوں سے مسلسل جاری ہے۔ جہاں روز ایک ماں اپنے بیٹے کی ایک بہن اپنے بھائی کی اور بچی اپنے والد کی تصویر لے کر سراپا احتجاج ہے کہ ہمارے پیارے کیوں سالوں سے لاپتہ ہیں؟ اور یہ سلسلہ مسلسل ہر روز ایک نئے چہرے کے ساتھ جاری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔