تعلیمی سے محرومی قوم کی تباہی – بختیار رحیم بلوچ

630

تعلیمی سے محرومی قوم کی تباہی

تحریر: بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے لوگ اس وقت زندہ رہنے کے بنیادی حق سے لیکر زندگی کے تمام بنیادی حقوں سے محروم ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی محرومی بچوں کی تعلیم سے دوری ہے۔ دوسرے ملکوں نے گذشتہ دو تین مہینے سے اسکولوں کو کرونا وائرس کی احتیاط اور پھیلاؤ کے روک تھام کے لئے بند رکھا ہے۔ اور دو تین مہینے گزرنے کے بعد آن لائن کلاسوں کی ابتدا کی۔ لیکن بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ بلوچستان میں آج کہیں بھی کوئی سکول نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ پہلے کہیں سکول تھا وہ گزشتہ بیس سالوں سے فوجی چھاونیوں یا کیمپوں میں بدل گئے ہیں۔ کہیں پر کچی سکول ہے تو وہ خستہ حال ہوکر رہ گئے ہیں، اس کے سائے میں جانور گرمی کے وقت آرام کرنے کیلئےاور دھوپ سے بچنے کے لئے جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کسی قوم سے دشمنی ہوتو اس قوم کے اسکولوں کو تباہ کرکے بند کروادو، وہ قوم خود تباہ ہو جائے گا، یہی دشمنی بلوچستان میں بلوچ قوم کے ساتھ نسل در نسل جاری ہے۔ آج ہر با شعور کو پتہ ہے، تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے، دوسری بات یہ کہ ہر قوم میں نوجوانوں کو ریڑھ کی ہڈی کہتے اور سمجھتے ہیں واقعی ہر قوم کا مستقبل ان کے نوجوانوں سے وابستہ ہے، اب ہمارے قوم کا مستقبل کیا ہے؟ ہم آج اپنے معاشرے کو دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں۔

ملک میں اب بے روزگاری اور مہنگائی ابھرتا ہوا آسمان سے ٹکرانے لگا ہے۔ بلوچستان کے بے روزگار عوام اپنے بچوں کو کس طرح سے اس سنگیں تعلیمی محرومی سے بچا سکتے ہیں؟ کوئی طالب میٹرک پاس ہے تو اسکے والدیں کے پاس پیسہ ہے تو وہ اپنے علاقے سے نکل کر دوسرے صوبوں میں پڑھنے کے لئے جا سکتا ہے ۔ کوئی پانچ سال کا بچہ (کے جی) کا طالب علم ہے تو وہ اپنے گھر سے دور کیسے پڑھنے کے لئے جاسکتا ہے۔

اب ہم بحیثیت ایک غریب قوم اگر ترقی پسند کرتے ہیں، اگر کامیابی خوشحالی چاہتے ہیں تو ہم سب کو مل کر اپنے تعلییم کا موجودہ صورت حال دیکھ کر بچوں کے مستقبل کا فیصلہ آج ہی کرنا ہوگا۔

بلوچستان میں ویسے ہم سب کچھ اپنے مدد آپ کے تحت کرتے آ رہے ہیں۔ پانی بجلی گیس روڈ علاج کے معاملے میں اب ہم کو اپنا تعلیمی نظام بھی اپنی مدد آپ کے تحت دیکھنا چاہیئے۔ جہاں سکول ہیں استاد/استانی نہیں ہیں، تو وہاں اپنے علاقے کے کسی پڑھے لکھے ایک نوجوان کو سکول میں بچوں کی پڑھائی کے لیے رکھ لیں، اسکا ماہانہ تنخواہ بچوں کے والدین فیسوں کے ذریعے ادا کرتے رہیں۔

جس علاقے میں سکول نہیں وہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دو کچے کمرے علاقےکے لوگ مل جل کر بنائیں ۔ ایک استاد رکھ کر اپنے بچوں کا تعلیم کو جاری رکھیں۔ اگر ہم مزید لاپرواہی کریں گے، تو ہماری آنے والی نسل کا مسقبل تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ ستر سالوں سے حکومت کے آسرے پر بیٹھے قوم کو اب خود سوچ کر اٹھ کر فیصلہ کرنا ہے، اب کسی ملک اور بیرونی فنڈنگ کی امید میں بیٹھنا بے عقلی اور جہالت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔