ڈہنک واقعہ: کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے

398

سانحہ ڈہنک کیخلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت خاران، وڈھ اور دیگر علاقوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئی اور مظاہرے کیئے گئے۔

جمعرات کو خاران شہر میں سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب پہنچی جہاں اس نے مظاہرے کی شکل اختیار کی۔

مظاہرے میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ شہید ملک ناز نے بلوچستان بھر کو ظلم اور زیادتی کیخلاف متحرک کردیا ہے۔ ڈہنک واقعہ صرف ایک علاقے کی کہانی نہیں بلکہ یہ خاران سمیت بلوچستان بھر کی کہانی بیان کرتی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ پاکستانی کی آئین ہمیں بولنے کا حق دیتی ہے لیکن گذشتہ کئی سالوں سے یہاں بولنے پر عوام کو خوف میں مبتلاء کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح یہ آئین عوام کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے لیکن یہاں عوام کے تحفظ کے بجائے مجرموں کو ڈہنک واقعے کی شکل میں تحفظ دیا جارہا ہے۔

دارالحکومت کوئٹہ میں برمش یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں طلباء، سیاسی اور سماجی کارکنان سمیت دیگر افراد نے شرکت کی۔

احتجاجی ریلی مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے کوئٹہ پریس کلب پہنچی اس دوران مظاہرین سانحہ ڈہنک اور بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہی کرنے والوں کیخلاف نعرے بازی کرتے رہیں۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں حالات معمول کے مطابق ہیں مگر دوسری طرف اگر ہم دیکھتے ہیں تو بلوچستان استعماریت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ ڈنک واقعے کے کارندوں کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ اس ڈیتھ اسکواڈ کو پارلیمنٹ میں بیٹھے بعض افراد کی سرپرستی حاصل ہے جن میں سب جرائم پیشہ افراد ملوث ہیں اور ان کو علاقے میں جرائم کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ مذکورہ افراد دن دیہاڑے ٹرانسپورٹرز سے بھتہ لینے، لوگوں کو اغواء کرنے، یہاں تک کہ گھروں سے لڑکیوں کو بھی اغواء کرکے ان کے ساتھ جبری شادی کرنے جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ اور یہ ایک ایسا گروہ ہے جس کے تعلقات جرائم پیشہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہیں۔

مظاہرین نے کہا کہ مذکورہ افراد کی تصاویر سیاسی جماعت کے لیڈران کے ساتھ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کو سب جانتے ہیں کہ یہ ایک وحشت پھیلانے والا گروہ ہے، یہ اسلحے کے ساتھ سرعام گھومتے ہیں، پولیس ان کو ہاتھ تک نہیں لگاسکتی کیوں کہ انہیں طاقتور قوتوں کی آشیر باد حاصل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات نہایت دگرگوں ہیں، ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں، نامعلوم افراد کے ہاتھوں لوگ مر رہے ہیں، میڈیا خاموش تماشائی ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے، عورتوں اور بچوں میں خوراک کی شدید کمی ہے، قدرتی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے، الیکشن کی بجائے سیلکشن ہوتی ہے، انٹرنیٹ بند ہے، یہ تمام تر حالات ایک جنگی سماج کی عکاسی کرتے ہیں۔

مظاہرین نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں بہتر ہے کہ آپ بلوچستان کو ایک جنگ زدہ علاقہ قرار دے دیں، تاکہ لوگوں کو تسلی ہو کہ وہ ایک ایسے جنگ زدہ سماج کا حصہ ہیں جہاں بولنا جرم ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ ہم اس مظاہرے کے توسط سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فوراً ڈیتھ اسکواڈ جیسے گروہ کو ختم کیا جائے اور ڈنک واقعے میں ملوث تمام مرکزی مجرمان اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے، نیز بلوچستان میں طاقت ور اداروں کی سرپرستی میں پلنے والے مسلح جتھوں کا خاتمہ کیا جائے۔

دریں اثناء آل اسٹوڈٹنس اتحاد اور سول سوسائٹی وڈھ کی جانب سے سانحہ ڈہنک کے خلاف وڈھ میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی وڈھ پریس کلب کے سامنے ایک جلسے کی شکل اختیار کر گئی۔

اسی طرح کیچ کے علاقے دشت میں بچوں سمیت دیگر افراد نے برمش بلوچ سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

خیال رہے ڈہنک واقعہ کے کیخلاف گذشتہ کئی روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چھوٹے اور بڑے نوعیت کے احتجاجی مظاہرے کیئے جارہے ہیں جن میں بلوچستان بھر میں حکومتی حمایت یافتہ افراد کو غیر مسلح کرنے سمیت ڈہنک واقعہ میں ملوث افراد کے مبینہ سربراہ سمیر سبزل کے گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

مختلف شہروں میں احتجاج کے علاوہ سوشل میڈیا پر #JusticeForBramsh کا ہیش کئی دنوں سے ٹرینڈ کررہا ہے۔ علاوہ ازیں نصیر آباد، حب، مستونگ اور کراچی میں واقعے کے حوالے سے احتجاج کا اعلامیہ جاری کیا جاچکا ہے۔