برٹش انڈیا میں جمہوریت کا آغاز – احمد علی کورار

124

برٹش انڈیا میں جمہوریت کا آغاز

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

اس حقیقت سے مفر نہیں تاریخی اعتبار سے دیکھا جاۓ تو ہندوستان میں 1892 کا انڈین کو نسل ایکٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ایکٹ میں پہلی مرتبہ جمہوریت کا آئیڈیا دیا گیا، جو کسی حد تک سیاسی لحاظ سے ہندوستانیوں کو مطمئن کر سکا اور ہندوستان میں جمہوریت کا پہیہ خراماں خراماں چل پڑا۔

مزید تفصیل میں جانے سے پہلے یہاں یہ بات واضح کر تا چلوں کہ آخر برطانیہ کو ان کونسل ایکٹس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانیوں میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔ انہوں نے سیاسی حقوق کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ 1892 کا کاٶنسل ایکٹ پہلا ایکٹ تھا، جو ہندوستان میں متعارف ہوا۔ اس سے پہلے بھی کاٶنسل ایکٹس تھے، 1861 کا کاٶنسل ایکٹ 1831 کا کاٶنسل ایکٹ 1813 کا کاٶنسل ایکٹ
1857 سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنے ایکٹس متعارف کرتی تھی۔
متذکرہ بالا نکتہ کو زیر بحث لاتے ہیں جب 1857 کے 1861 کا کاٶنسل ایکٹ موجود تھا تو 1892 کاٶنسل ایکٹ کی ضرورت کیوں پڑی۔

بنیادی وجہ یہ تھی سابقہ کاٶنسل ایکٹ ہندوستانیوں کے سیاسی حقوق کے لیے سود مند نہیں تھا۔ وہ ان کے سیاسی حقوق ensure نہیں کرسکا۔

جب ہندوستان میں سیاسی جدوجہد اور شورش بڑھتی جا رہی تھی تو برطانیہ نے محسوس کیا کسی طرح ہندوستانیوں کو قائل کیا جاۓ اس وجہ سے انہوں نے ہندوستان میں 1892 کاٶنسل ایکٹ متعارف کیا، جس میں پہلی مرتبہ جمہوریت کی بات کی گئی۔

گورنر جنرل بطور ایڈمنسٹریٹیو ہیڈ آف انڈیا کے طور پر تعینات کیا جاتا تھا(آپ کو یہ بات بھی واضح کرتا چلوں گورنر جنرل اور وائسراۓ میں کوئی فرق نہیں دونوں ایک ہی چیز ہیں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی اس وقت ایڈمنسڑیٹیو ہیڈ گورنر جنرل تھے جبکہ 1857 کے بعد ایڈمنسٹریٹیو ہیڈ کو وائسراۓ کہا جانے لگا)
1892 انڈین کاٶنسل ایکٹ کے مطابق گورنر جنرل یا وائسراۓ کو ایڈمنسٹریٹیو سسٹم چلانے کے لیے دو کاٶنسلز کی ضرورت تھی
1.ایگزیکٹو کونسل جس کے ممبرز 5 اور پانچوں کے پانچوں برٹش ہوں گے۔
2.امپیریل لیجسلیٹیو کو نسل جس میں 40 فیصد انڈینز اور 60 فیصد برٹش آفیشل ہوں گے۔

یہ ایک طرح سے گورنر جنرل کی کابینہ تھی۔ ایسا نہیں کہ اس سے پہلے کے ایکٹ میں امپریل لیجسلیٹیو کونسل میں انڈینز نہیں تھے 50 فیصد انڈینز تھے سر سید احمد خان بھی حصہ رہے ہیں لیکن سابقہ ایکٹ کے مطابق ان کو برٹش نامزد کرتے تھے وہ Elect ہو کر نہیں آتے تھے۔

اب جب 1892 کے کاٶنسل ایکٹ امپیریل لیجسلیٹیو میں 40 فیصد انڈینز کی بات کی جارہی ہے، وہ اب Elect ہو کر آئیں گے دیکھا جاۓ تو جمہوریت کی بات ہو رہی ہے۔

اچھی بات ہے لوگوں کے نمائندے اسمبلی میں ان کے لیے بات کریں گے، ہندوستان میں جمہوریت آئے گی۔
لیکن سر سید School of thought اس ایکٹ سے خوش نہیں تھے، انہوں نے اس ایکٹ پر تنقید کی۔ سر سید اس سے پہلے بھی جمہوریت کے نظریے کی مخالفت کرتے رہے، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ سر سید اور اس کے رفقاء جمہوریت کے خلاف تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ مسلمان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ سیاست کا حصہ بنیں اور الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ اس وقت مسلمان ہندوستان میں چوبیس پچیس فیصد تھے۔

سر سید یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی الگ میکنیزم ہو ان کے سیاسی حقوق کی یقینی طور پر کوئی گارنٹی ہو تب جا کے وہ کسی طرح سیاسی طور پر خود کو منوا سکتے ہیں۔ چوبیس پچیس فیصد مسلمان جو ہندوستان میں بکھرے پڑے ہیں وہ الیکشن کیسے جیت سکتے ہیں۔

اس وقت ہندوستان میں چھ صوبے تھے اور ان چھ صوبوں میں مسلمان چو بیس پچیس فیصد تھے باقی 65 فیصد ہندو اور 10 فیصد دیگر اقلیتیں تھیں۔

1892 میں جمہوریت کا جو آئیڈیا دیا گیا، اب ایکٹ کے مطابق امپریل لیجسلیٹیو کاونسل میں 40% کے حساب سے انڈینز بنتے ہیں چار سے چھ۔ اب چار یا چھ سیٹوں کے لیے ہندوستان میں الیکشن ہوں گے؟ ایسا نہیں ہوا، برٹش نے نامینیشنل الیکشن کروائے۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔