خواتین کا قتل پاکستان کی انسانیت سے محرومی کی واضح ثبوت ہے ۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

280

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان جیسی تاریخ و تہذیبی اقدار سے نا آشنا دشمن سے خیر کی توقع خوش فہمی کے سمندر میں ڈوبنے کے مترادف ہے۔ ڈنک اور دازن جیسے واقعات پاکستان کے انسانی اقدار سے بے بہر ہونے کی واضح ثبوت اور دلیل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈنک واقعے پر بلوچ قوم کے تاریخی احتجاج نے پاکستان کے جرائم کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔ ان واقعات سے پاکستان کے پالے ہوئے پارلیمانی گروہوں کے بدنما چہرے عیاں ہوئے تو حواس باختہ ریاستی فوج نے اپنے چیلوں کو تحفظ دینے کیلئے سابقہ ڈیتھ اسکواڈز کے بجائے مقامی گروپوں کا سہارا لیا۔ ان ڈیتھ سکواڈز کے خاتمے اور درندگی میں کمی کے بجائے ایک اور بلوچ بیٹی بی بی کلثوم کو قتل کرکے ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ریاست پاکستان، بلوچ قوم کو اجتماعی سزا دینے کے عمل سے ہمیں زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ واضح ہے کہ غلام بلوچ کی عزت وآبرو اور جان ومال ریاستی طاقت کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔

ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے کہا کہ پاکستان کی بربریت اور حیوانیت پر مبنی حکمت عملی واضح کرتا ہے کہ پاکستان طاقت کے جارحانہ استعمال سے بلوچ قوم کو باور کرانا چاہتا ہے کہ غلام کی مقدر میں ذلت اورموت لکھی جاچکی ہے اور لوگ اپنے وطن پر آبرومندانہ زندگی کا خواب دیکھنا بند کریں۔ ڈُنک اور دازن سمیت بلوچستان کے طول وعرض میں رونماء ہونے والے ایسے واقعات سے پاکستان بلوچ قوم کی عزت و آبرو سے کھیل کر بلوچ قوم کو نفسیاتی شکست سے دوچار کرکے زیر کرنا چاہتا ہے۔ اس کام میں پاکستان کو بلوچ باجگزار اور پارلیمانی گدھوں کی سہولت کاری اور بھرپور معاونت حاصل ہے۔ اس کا اظہار ہم کئی دفعہ کر چکے ہیں۔ نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں اپنی ماضی کو چھپانے کیلئے عوامی احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی جیسی جماعتیں اور ان کے جیسے لیڈر ہر دور میں پاکستان کا ساتھ دے چکے ہیں مگر وہ زیادہ دیر تک عوام کی نظروں میں دھول نہیں جھونک سکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان بیس سالہ قتل عام سے بلوچ قوم کو نفسیاتی دباؤ میں لاکر شکست سے دوچار نہیں کرسکا تو آئندہ بھی بلوچ اس درندہ صفت ریاست کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے۔ البتہ ایسے واقعات ہمیں اپنی غلامی اور ذلت کا احساس ضرور دلاتے رہیں گے۔

آزادی پسند رہنماء نے کہا کہ بلوچستان کی جنگ آزادی کے مقابلے میں دشمن شکست سے دوچار ہوچکا ہے۔ یہ شکست ہمیں بلوچستان میں بڑھتی ہوئی درندگی و حیوانیت، نسل کشی و اجتماعی سزا کی صورت میں، ہر چار کلومیٹر میں قائم چوکیوں اور کیمپوں کی صورت میں، ہر شہر اور گاؤں میں ڈیتھ سکواڈز کی شکل میں اور پارلیمانی گروپوں پر نوازشات کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ یہاں ناکامی کے بعد خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کا غیر انسانی عمل شروع کیا گیا۔ اس حیوانیت کے بھی نتائج ریاست کی توقعات کے برعکس برآمد ہوئے تو اپنے آلہ کار اور کرایہ کے قاتل ڈیتھ سکواڈز کے ذریعے خواتین کا قتل شروع کیا گیا۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا پاکستان بلوچ وطن میں جنگی جرائم کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے بربریت کی انتہاء کرنے کے باوجود ریاستی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان بھر میں ڈیتھ سکواڈز کا جال پھیلایا گیا ہے۔ میں واضح کرتاہوں کہ یہ ڈیتھ سکواڈز پاکستانی فوج کا غیر اعلانیہ حصہ ہیں۔ پاکستان ان کے ذریعے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ تمام جنگی جرائم پاکستان کے نامہ اعمال میں لکھے جاچکے ہیں اور جلد یا بدیر ان کا حساب لیا جائے گا۔