آخری سفر – روبینہ بلوچ

685

آخری سفر

 تحریر : روبینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سنہری صبح بھیگ رہی تھی، صبح کا نارنجی سورج طلوع ہو رہا تھا، نارنجی سورج کی شعاعیں ہر طرف پھیل رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کمرے میں جلدی جلدی بیگ پیک کرنے میں مصروف تھی، جب بیگ پیک کرنے کا کام مکمل ہوا تو پھر وہ اپنی پانج سال کی بیٹی کی جانب بڑھی جو ہر شے سے بے فکر گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کو صبح کی گہری نیند سے جگایا۔ جب اسکی بادامی آنکھوں ،چمکتی جلد والی شہزادی نیند سے جگی تو اس نے جلدی سے اسے تیار کیا۔ ناشتہ کروایا اور پھر نیلے رنگ کی بلوچی کام دار والی لباس پہنائی۔ اور ماں نے بھی اپنی تیاری مکمل کی لال رنگ کی پرس کندھے پہ لی۔ دونوں ماں بیٹی تیار ہوکر اپنےسفر کےلیئے گھر سے نکلے راستے میں بیٹی نے ماں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا، امی آپکو معلوم ہے مجھے گلابی رنگ بہت پسند ہے پھر بھی آپ نے نیلے رنگ کے کپڑے پہنائے ہیں، کیا آپکو نہیں معلوم کہ نیلا رنگ لڑکوں کے لیئے ہوتا ہے؟ امی نے مسکرا کر بیٹی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی، بیٹا! لڑکوں اور لڑکیوں کے کپڑوں کا کوئی مخصوص رنگ نہیں ہوتا۔ ہر رنگ کے کپڑے لڑکے اور لڑکیوں کو پرکشش بناتے ہیں اور آپ تو میرے لیئے میرا بیٹا اور میری بیٹی دونوں ہی ہو۔ دونوں کی بات یہاں ختم ہوئی اور دونوں کچھ ہی دور چلتے چلتے مسافر بس تک پہنچے اور بس میں سوار ہوکر ماں نے اپنی بیٹی کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اور بس منزل کی طرف رواں ہوئی اور سفر شروع ہوگیا۔

ائیر کنڈیشن بس اپنی منزل کی جانب رواں تھی۔ آہستہ آہستہ بس کھلی سڑک پہ تیز دوڑنے لگی اور وہ بس کے کھڑکی کے قریب والی سیٹ پہ بیٹھی بس سے باہر کے مناظر دیکھ رہی تھی۔ اچھے برے حادثاتی تمام تر راستوں سے بس کبھی آہستہ تو کبھی تیز دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ جب اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا جو اسکے گود میں سر رکھے سفر کی تھکن کے سبب سو رہی تھی۔ اتنے میں ایک خیال کے تحت اس نے کندھے پر سے پرس اتارا اور اس میں سے اپنا نوٹ بک نکالا اور اس نوٹ بک میں لکھی ہوئی اپنی تحریر کو پڑھنے لگی۔ اس نے وہ تحریر (آرٹیکل) کچھ یوں لکھی تھی۔

یہ زندگی ایک سفر ہے اور جب تک سفر کی کوئی منزل نہ ہو تب تک مسافر اپنی سفر سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ اگر زندگی کے سفر کی کوئی منزل یعنی زندگی کا کوئی مقصد اور حصول مقصد کا عزم نہ ہو اور زندگی صرف نارمل کھانے ، پینے اور سونے والی زندگی ہو تو زندگی سے لطف اندوز ہونا ناممکن ہے۔ بے مقصد زندگی میں انسان زندہ لاش کی مانند ہوتا ہے۔

اکثر مسافروں کی منزلیں اور منزلوں کو پانے والے راستے الگ ہوتے ہیں، اگر خوش قسمتی یہ ہو کہ منزل بھی ایک ہی ہو راستے بھی ایک ہی ہو اور مسافر بھی ہم خیال ہو تو ہمت اور طاقت بہت بڑھ جاتی ہے اور سفر بھی ایسا جس میں زیادہ سامان کی ضرورت نہ ہو ویسے بھی کم سامان سفر آسان کرتی ہے اور سفر میں ہم منزل مسافروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں تاکہ آپکا سفر بھی خوش گوار ہو۔ سمندر سے بھی گہری سوچ رکھے تاکہ منزل تک پہنجنے کا آپکا عزم پورا ہوجائے اور آپ تک پہنچتے پہنچتے آپ کے دشمن ڈوب کے مر جائیں۔

دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو بار بار تجربے کرتے ہیں اور یوں تجربوں سے سیکھ لیتے ہیں ۔ دوسرے وہ لوگ جو ایک آدھ تجربے سے سیکھ لیتے ہیں اور اپنی زندگی کی سمت بدل دیتے ہیں ۔ تیسرے وہ لوگ جو دوسروں کے کئے گئےتجربوں سے سیکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں لطف اندوز رہتے ہیں۔

زندگی میں تجربوں سے سیکھ ملتے ہی ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے۔ حصول تجربوں کے مطابق زندگی میں آگے بڑھا جائے۔ زندگی کے اس سفر میں مرد اور عورت یہ دو جنس کے لوگ ہمارے ہم مسافر ہوتے ہیں ۔ مرد کے نسبت عورت چاہے جتنے بھی صحیح تجربے اپنی زندگی اور دوسروں کی زندگیوں سے حاصل کریں اور تجروں کے زریعے اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہے لیکن اکثر عورت ہی معاشرے کے رسم و رواج کے ملبے تلے اپنے آگے بڑھنے کے جذبے کے ساتھ دبی رہ جاتی ہے۔عورت بھی تو انسان ہے اسے بھی حق ہے کہ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنائیں اور اسی مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کریں۔ عورت بھی یہ چاہتی ہے کہ قوم و معاشرے اور اس دنیا سے رخصت ہونے یعنی مرنے کے بعد بھی اسکا نام ہمیشہ زندہ رہیں، جو صلاحیتں عورت میں ہوتی ہے اگر ان میں کوئی ایک صلاحیت بھی بنی نوع انسان کو فائدہ پینچانے کےلئے استعمال کریں چاہے وہ صلاحیت تحریر لکھنے کی ہو اگر آپکے لکھے اچھے تحریروں سے ملت کے مقدر کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور آپکی قوم اسطرح ترقی کرتی ہے تو آپ فائدے مند اعمال کرنا نہ روکیں اور ملت کے روشن مقدر کا ستارہ بن جائیں اور بلوچ قوم ایک تاریخی قوم ہے بلوچ قوم کو چاہے کہ اس جدید دور میں اپنی عورتوں کو آگے بڑھنے سے نہ روکیں۔

ہمیں اپنی زندگی یہ سوچ کر بھی گزارنی چاہئے کہ جو وقت اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یہ ہمارا آخری سفر بھی ہوسکتا اگلے ہی پل زندگی کیسا موڑ لے کوئی نہیں جانتا کوئی گاڑی کب ہمیں اپنا لقمہ بنا دے، اچانک سے کسی کھائی میں گر جانے سے یا کرنٹ لگنے سے کسی بھی وقت موت ہمیں آپکڑ سکتی ہے۔

اسی لئے زندگی کے ہر لمحے کو آخری لمحہ سمجھ کر اپنے ہم مسافروں اور قوم کی ترقی کے لیئے چاہیئے چھوٹے اعمال یعنی اپنی تحریوں سے ہی سہی اپنے قوم کے لئے اپنے سوج و فکر کا مظاہرہ کریں۔

اپنی لکھی ہوئی پوری تحریر پڑھنے کے بعد اس نے اپنی نوٹ بک بند کر دی ۔ وہ اپنی لکھی ہوئی تحریر کو پوری دنیا اور قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اس سفر کے ساتھ تحریر لکھنے کی اپنی صلاحت نہ روکنے کا عزم کیا۔ اگر اپنی اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لئے دہلیز پار کرکے عملی کام سر انجام نہیں دے سکتی تو کم ازکم اپنی قلم کو روکے رہنے نہیں دے گی۔ چاہے سامنے اس کی کتنی دیواریں کھڑی کر دی جائیں، تو چوری چھپے ہی سہی وہ اپنے قلم کے زریعے آنے والے ہر دیوار کو پار کرے گی۔

کئی گھنٹوں کے بس کا سفر ختم ہوا، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ٹھک ٹھک بس کی سیڑھیاں اتری۔ اس وقت اسے جہاں جانا تھا اسی طرف رخ کرکے وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگی۔ چڑھتے سورج کے وقت اس نےزندگی میں آگے بڑھنے کا عزم کیا تھا ڈھلتا ڈوبتا، سورج اسکی ساری ناامیدوں اور معاشرے کے ڈر کو ساتھ لے ڈوبا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔