کتابیں جھانکتی ہیں – احمد علی کورار

225

کتابیں جھانکتی ہیں

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

عہد طفولیت سے کتابوں سے شغف تھا، جس دیہ میں آنکھ کھلی وہاں ہرے بھرے کھلیانوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا، سادہ لوح لوگ علم کی اہمیت سے اتنا واقف نہیں تھے، بہت سے میرے ہم عمر علی الصبح سکول کے بجائے کھیتوں کا رخ کرتے تھے۔ لیکن ایسے ماحول میں بھی مجھے کتابوں سے کمال رغبت تھی، یہ لگاو فطری تھا۔ نصابی کتابیں تو گھول کے پی رکھی تھیں ہر وقت غیر نصابی کتب پڑھنے کی تاک میں ہوتا۔

ابو کی چند ایک کتابیں تاڑ رکھی تھیں، موقع پاتے ہی ان کتابوں کو ٹٹولنے لگا، ترتیب بکھیر دی، اب اس عمر میں اتنی ضخیم کتابیں پڑھنا چائینیز بولنے کے مترادف تھا لیکن شوق کا کوئی مول نہیں۔ سمجھ آئے نہیں آئے کتابیں لے کے بیٹھ جاتا۔

ترتیب بکھری دیکھ کر ابو بھانپ گئے کوئی تو کتابوں کو ٹٹول رہا ہے ایک دن پکڑا گیا ابو یہ شوق دیکھ کر ایک دو پرانی کتابیں دے دیں۔

ایک دن گاوں سے شہر انکل کے گھر آنا ہوا، انکل کی ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر کتابیں چوری کرنے کی ٹھان لیں لیکن اس منصوبے میں کامیاب نہ ہو سکا اور پکڑا گیا۔ اس وقت کتابیں خریدنے کی سکت بھی نہ تھی۔ طفلی کے زمانے میں یہ عجیب شوق پال رکھا تھا، کیوں کہ اس زمانے میں بچے کتاب بے زار ہوتے ہیں لیکن میری رغبت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وقت گذرتا گیا، کتابوں کی تلاش جاری رہی، ہم گاوں سے شہر منتقل ہو گئے، عہد طفولیت سے عہد جوانی میں چلے گئے۔ کتابوں سے شغف برقرار رہا۔ اپنی سکت کے مطابق ہفتہ وار اخبار لیتا اس میں میگزین بھی ہوتا، بڑے طمطراق سے پڑھتا یہ روش جاری رکھی۔

بی اے کرنے کے بعد کسی نجی ادارے میں پڑھانے کا سوچا یہ شوق بھی پورا ہو گیا اور کتابیں لینے کے لیے دو چار روپے آنے لگے پھر آدھے پیسوں سے ہر ماہ کتابیں لیتا ایک تسلسل تھا چلتا رہا، وقت گذرتا گیا، کتابوں کی جگہ موبائل نے لے لی، رفتہ رفتہ یہ شوق ماند پڑنے لگی۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ موبائل کتب بینی کے رجحان میں خلل ثابت ہوا، بری طرح اثر انداز ہوا، اب کتابیں تو بہت ہیں اور خریدنے کی سکت بھی ہے لیکن پڑھنے کا وقت نہیں، یہ وقت ہم سے موبائل ٹیکنالوجی نے چھینا ہے۔

اب نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اپنے وقت کا بیشتر حصہ سوشل میڈیا اور موبائل پہ مختلف قسم کے گیمز کھیل کر شوز دیکھ کر صرف کر رہی ہے۔ انہیں کتب بینی سے کوئی لگاو نہیں، کتابوں سے کوئی سروکار نہیں۔

اب تو نوجوان بمشکل اپنی نصابی کتب کا مطالعہ کرتے ہوں، سوشل میڈیا نے ہمیں اس قدر مقید کر رکھا ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے ذہن کی نشوونما ہوتی ہے لیکن کتب سے دوری نے ہمارے ذہنوں کو کند کر دیا ہے۔ برسوں سے انسان کا کتابوں سے جو گہرا رشتہ عصر حاضر میں اس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

پہلے ہم کتابوں کی تاک میں ہوتے تھے، اب کتابیں جھانکتی ہیں، ہمہ وقت صدا لگاتی ہیں، ہے کوئی پڑھنے والا لیکن موبائل ٹیکنالوجی کی دھن میں مگن انسانوں کو سنائی نہیں دیتا، دکھائی نہیں دیتا، کان بہرے اور دیدے کمزور ہو چکے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔