ڈنک واقعہ پارلیمانی پارٹیوں کا غلیظ چہرہ عیاں کرتا ہے – چیئرمین خلیل بلوچ

247

بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے تربت ڈنک واقعے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عالمی اداروں اور میڈیا کی بلوچستان داخلے پر پابندی اور مقامی میڈیا کی خاموشی سے یہ واقعات نہ صرف دنیا کی نظروں میں اوجھل ہوجاتے ہیں بلکہ اس طرح ان میں شدت لائی جاتی ہے۔ تربت ڈنک میں گھر پر حملہ، فائرنگ اور خاتون کی شہادت اور معصوم بچی کو زخمی کرنا ایک نہایت درد ناک واقعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات پارلیمانی پارٹیوں کے مکروہ چہروں کو مزید عیاں کرتے ہیں کیونکہ وہ جس پارلیمان کا حصہ ہیں ان کی حیثیت اور افادیت کوئی پوشیدہ شئے نہیں۔ نام نہاد منتخب نمائندوں کو ایسے واقعات کر پروان چڑھانے کیلئے نامزد کیا جاتا ہے۔ بلوچ نسل کشی کے ساتھ بلوچ ننگ و ناموس پر حملہ میں پاکستانی پارلیمان سمیت تمام ادارے اور ان کے پجاری ملوث ہیں۔ پارلیمانی پارٹیوں نے اپنے مکروہ وجود کو زندہ رکھنے اور فوج کی خوشنودی کے لئے بلوچ سماج کے لئے ناسور بننے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ان ناسوروں نے سینکڑوں کی تعداد میں جرائم پیشہ جھتے منظم کئے ہیں تاکہ تحریک آزادی کے سامنے بند باندھ سکیں۔ یہ جھتے فوج کے شراکت میں بلوچ قوم کے خلاف واضح خطوط پر جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ انہیں بلوچ نسل کشی کے بدلے میں اپنی مال و دولت میں اضافہ کیلئے کسی بھی عمل کیلئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ ڈنک تربت میں جن درندوں نے معصوم لوگوں پر حملہ کیا، ان کی پارلیمانی پارٹیوں کے کرتا دھرتاؤں کے ساتھ تصاویراس امر کی واضح دلیل ہیں کہ نام نہاد جمہوریت کے نام پر یہ درندے بلوچ قوم کے جان، مال، عزت و آبرو اور اقدار سے کھیل رہے ہیں۔ یہ گروہ پاکستانی فوج کی خوشنودی کے لئے کسی بھی حد تک گرسکتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹیاں نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ یہ بلوچ قومی احتساب سے کسی بھی صورت میں نہیں بچ سکتے ہیں۔ ڈنک کے لوگوں، شہید خاتون کی فیملی کی بہادری اور جرات قابل تعریف ہے۔ انہوں نے ریاستی بدمعاشوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر جرات کی نئی مثال قائم کی۔ بلوچ عزت و غیرت پر حملہ کے خلاف بلوچ قوم نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے۔ ڈنک واقعہ بھی مزاحمت کی تاریخ میں ایک باوقار اضافہ ہے۔

انہوں نے کہا دشمن پاکستان بلوچ قوم پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہے۔ ایک جانب براہ راست پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ نسل کشی میں مصروف ہیں تو دوسری جانب پارلیمانی پارٹی اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ڈیتھ اسکواڈ بلوچ قوم کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب ہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ریاستی اداروں اور اس کے ڈیتھ اسکواڈز کی جانب سے گھروں، خواتین و بچوں پر حملہ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ضلع خاران میں بانک حلیمہ، تمپ میں بی بی شہناز، مشکے میں نازگل سمیت کئی علاقوں میں خواتین کے اغوا اور شہادت کی واقعات رونما ہوئی ہیں۔ گوکہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان سے ہمارا رشتہ غلام اور آقا کا ہے۔ آقا کی جانب سے یہ رویہ بھی حسب توقع ہے۔ مگر پاکستان یہ بھی جان لے کہ بلوچ قوم نے اسے کبھی بھی بحیثت آقا قبول نہیں کی ہے بلکہ اس کے خلاف بغاوت کی ہے۔ یہ بغاوت اور مزاحمت آج بھی جاری ہے۔ بلوچ قوم میں یہ شعور اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ آزادی کے بغیر نہ ان کے گھربار اور بچے محفوظ ہیں اور نہ عزت و آبرو۔