نام نہاد غیرت اور ماؤں کا قتل ۔ کلمت بلوچ

275

نام نہاد غیرت اور ماؤں کا قتل

تحریر۔ کلمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سماج کو نجانے کس صدی کی ہواؤں نے آندھی کی طرح لپٹا ہوا ہے کہ ایک ایسے غیر انسانی رسم کو ہر سو پھیلا دیا گیا ہے کہ بلوچ عورت کی وجود دھندلی پڑ گئی ہے، حوا نے سیب یا گندم کا ایک دانا زبان پر کیا رکھ دی کہ اُس کی سزا آج بھی عورت بھگت رہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اگر حوا کی غلطی اتنی تلخ اور زور دار ضرب مرد کے غیرت و زہن پر تصور کیا جاتا ہے تو آدم بھی مرد تھا، اُسے حوا کیلئے برسوں تک اشکبار ہونا کیوں پڑا؟ حوا نے ابلیسیت کے آگے کمزور پڑ کر جنت جیسے حسین و جمیل اور عیش و آرام خانے کا گمان تک نہیں کیا تو آدم کے آنسوؤں کو میں کس کمزوری کا نام دوں؟ ایسے کئی سوالات ذہن میں جنم لیتے ہیں. مرد کی مردانگی کا جنازہ تب اُٹھ چکا ہوتا ہے، جب اہل علم غیرجانبدار ہوکر ان سوالوں کا جواب پیش کر رہا ہوتا ہے، ایک اور دلیل اب ہر مکالمہ، ہر تجزیہ اور بحث و انتقاد کا مرکز نظر آتا ہے، جب عورت کے حقوق کا تذکرہ ہوتا ہے تو یہی کہا جاتا ہیکہ یہ مرد حضرات جو عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں، ان کا مقصد و حقیقت یہی ہیکہ انہیں عورت پر آسانی سے رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنا مردانہ ہوس پورا کرسکیں، جب سوال یہ اُٹھایا جائے کہ عورت پر سرِ بازار تیزاب کیوں پھینکا جاتا ہے تو تب یہ رسمی فتویٰ جاری ہوتا ہیکہ وہ گھر کی زینت ہے۔ اُسے گھر سے باہر آنے کی کیا ضرورت، ایسے من گھڑت اور غیرمہذب الزامات کا سامنا تو ہر روز عورت کو ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اُسے ادا ہورہی ہیں یا نہیں یہ مجھ جیسے ادنیٰ سے لکھاری کی فہم سے کافی دور ہے البتہ میرے سماج کے عورت کی بےبسی میری آنکھوں کے سفید زرد مائل پردے کو ہر روز چیرکر گذرتا ہے، تو میں روشن بینائی درمان کیئے بغیر حاصل کرتا ہوں۔ یہ عورت کا مجھ پر احسان ہیکہ میرے شعوری نین کو کبھی اندھا ہونے نہیں دیا، مجھ سے ہزار گنا بہتر اور بادلیل انداز میں عورت کی موجودہ اور گزرے ہوئے ادوار کو اپنے کتابوں کی اوراق میں قلمبند کئے ہیں۔ بحثیت بلوچ مجھے فخر محسوس ہوتا ہیکہ اس فرسودہ، قبائلی، تنگ نظر اور انتہائی سخت فیوڈل نظام میں مبتلا قوم میں بھی ایسے بلوچ لکھاری موجود ہیں جو عورت کے حقوق کو بڑے مدلل انداز اور بڑے اعتدال کے ساتھ اپنے قارئین کو پیش کرتے ہیں، ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت بدترین دور سے گزر رہی ہے، آج بھی یہاں عورت اپنے حق میں فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے، آج بھی اس معاشرے میں عورت خود لاشعوری طورپر یا خوف کی بنا پر اپنا سارا وجود فیوڈل حامی مرد کے دامن میں جھونک دیتی ہے یا بغاوت کرنے پر اُسے سخت سے سخت سزا کا سامنا ہوتا ہے۔ اس سماج میں ایسے بھی حقیقی واقعات سے نظروں سے گزری ہیں کہ ان کو بیان کرنا محض نام نہاد غیرت پر لشکر کشی کے مانند ہے۔

عورت کیا ہے؟ کاش یہ سوال کبھی میرے سماج کے خواتین کے زہن میں گھر کر لیتا، وہ جواب طلب دکھائی دیتے، ڈٹ کر انتقاد کا دور برپا کر دیتے، شعوری طور پر مرد کے شانہ بشانہ خود کو لاکر کھڑے کر دیتے تو شاید میرا ذہنی کوفت ختم ہو جاتا، چند روز قبل قبائلی علاقہ جھل مگسی میں ایک عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوئی اور شور برپا ہوا کہ غیرت کی چنگاری پھر اُٹھا اور ہوس بردار کے کوچے کو آگ کے شکل میں بدل دیا، نصیرآباد، جعفرآباد اور جھل مگسی سمیت بلوچستان کے دیگر دیہی اور شہری علاقوں میں عورت کی زندگی موسمی پرندوں سے بھی بدتر ہے، جن کے آمد پر شکاری اپنے بندوق کے ساتھ ہر جگہ نظر آرہا ہوتا ہے۔ یہاں غیرت کے نام پر روز معصوم زندگیوں کے ساتھ کھیل کھیلا جاتا ہے، یہاں تو المیہ یہ ہیکہ اپنی ذاتی مسئلوں میں بھی عورت کو بکری بناکر اپنا شکار حاصل کیا جاتا ہے۔ عورت کو ہمیشہ اپنے مفاد میں استعمال کرتے دیکھا گیا ہے مرد نے زمین یا عام روایتی جنگوں میں کئی انسانی قتل و غارت کی انتہاء کر دیا ہے تو عورت قرآن سرپر اُٹھا کر مقتولوں کے گھر پہنچ گئی ہے اور پھر رسمی جرگہ و تصفیہ میں اُسی عورت کو خون کے بدلے رشتوں کا نام دے کر اسی گھروں میں دے دیا جاتا ہے اور عورت مجبور ہوکر اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کے ساتھ زندگی گزار دیتی ہے، سمجھ نہیں آتا کہ یہ رسمیں کب اور کیسے بلوچ رسموں میں اپنا پنجا گاڑھ چکی ہیں جبکہ بلوچ تاریخ جب جب عورت کی بات کرتی ہے تو وہاں ماہناز، ہانی اور بانڑی جیسے کردار ہمیں ملتی ہیں، جبکہ آج کا بلوچ عورت انتہائی کٹھن دور میں اپنی سانسیں لے رہی ہے۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ اب سانسیں لینا بھی اُس کیلئے محال ہو چکی، مجھے یاد ہے میرے آبائی علاقے میں ایک گھر پر کسی چور نے رات کے تاریک پہر میں ڈاکہ ڈالا تھا تو گھر میں ہلہ اور شور مچ گیا۔ چور بھاگنے پر مجبور ہوگیا، پورا گاؤں شور سُن کر ایک جگہ پر اکھٹا ہوا، چور کہاں گیا کسی کے ہاتھ بھی نہیں لگا نہ کوئی عینی شاہد نے اُس کا حوالہ دیا۔ جب صبح ہوئی تو اُس گھر میں ایک ایسی خاموش شور مچی ہوئی تھی کہ آسمان کو ہلاکر رکھ دیا۔ مگر محلے والے اس بات سے مکمل لاعلم تھے بس ہر جگہ یہی تذکرہ تھا کہ رات چور فلانی کے گھر آیا تھا۔ یہاں بھی اکثر و بیشتر یہی الزام تھا کہ آیا ہوگا اُس کے بہو یا بیٹی پر، اُن کا عاشق ہوگا، ایسے کیسے چور اس گاؤں سے با آسانی فرار اختیار کرسکتا ہے، یہ محلے کی حالت تھی جبکہ اُس گھر میں ایک لڑکی پر قیامت کی آگ برس رہی تھی، کئی دنوں بعد پتا چلا کہ فلانی نے اپنے بیٹی کو غیرت کے نام پر قتل کردیا ہے.

مجھ جیسا انسان بس ہکابکا ہی رہ سکتا ہے، گاؤں میں ہر سو واہ واہ کی صدائیں تھیں، جیسے انہوں نے ایک شہنشاہی تخت پر فتح پائی ہو۔ جب اُس لڑکی کے قتل کرنے کا منظر سامنے آنے لگا تو روح کانپنے لگا کہ انسان بھی کبھی انسانیت کا اس حد تک تذلیل کر سکتا ہے، اُس لڑکی کے دو تین دنوں کے اندر ہاتھ پیر توڑ دیئے گئے تھے۔ اُس کے ساتھ اتنا ظلم کیا گیا تھا کہ انسانی سوچ وہاں دنگ رہ جاتا ہے، اسکی گردن توڑنے تک قرآن اُس کے سامنے رکھ کر یہی کہا جاتا تھا کہ بتاؤ وہ کون تھا؟ تمہارا یار جو رات کے تاریکی میں آپ سے رنگ ریلیاں منانے آیا ہوا تھا؟ وہ مسلسل لہو سے بھرے منہ میں نڈھال زبان کو گھماتے ہوئے کہتی تھی ” کنے دا قرآن نا قسم ءِ کنے ہچ ئس سما افک ای بے گناہ اُٹ، ای تو کہوکُٹ پین اسٹ نا زند ءِ انتے تباہ کیو” لیکن کون مانتا یہاں تو غیرتوں کے آگے عقیدے اور قرآن بھی معنی نہیں رکھتے۔ مار مار کر اُسے موت کے در پر سرِموں کے فاصلے پر چھوڑ دیا اور یہی کہتے ہیں کہ آخر میں اُس گھر کے ایک بڑی عمر کی عورت نے اُس لڑکی کے گردن پر لکڑیوں سے بنا ہوا ایک تختہ رکھ کر اُس کے اوپر بیٹھ گئی اور وہ لڑکی(لاش) لرزتے بنا دم توڑ گئی اور اُس کا دو سالہ بچہ دور سے ماں کو صدائیں دے کر رو رہا تھا۔ مگر ماں کی ذہن و جسم قیامت سے گذر رہی تھی، دل اپنے بچے کی چیخوں میں گم تھا۔ ہائے! خدا اتنا ظلم تو قدیم روم کے غلام عورت پر بھی نہیں ہوتا تھا، مجھے تو حیرانی تب ہوئی کہ ایک عورت کو مارنے میں سب سے بڑا ہاتھ بھی ایک عورت کا تھا۔ ایک ماں کے قتل میں بھی ایک ماں شریک تھی۔ بیشک فیوڈل سماج میں کئی جگہ عورتیں بھی مردانی طور طریقوں کو اپنا کر اپنے ایک دائرے کی حکومت قائم کرتے ہیں۔

آج بھی آپ ایمانداری سے اس سماج پر نظر دوڑائیں، آپ کو ایسی ہزاروں عورتیں ملینگے جو عورت کے روپ میں روایتی مرد ہوتے ہیں، تو ذکر کرتا چلوں کہ آخر اُس لڑکی کو کفن کے بغیر جنازہ پڑھے بغیر زمین میں مدفون کردیا گیا۔ چند ماہ بعد چور کا بھی پتا لگا دیا گیا چند علاقائی میر سردار ٹکری کے موجودگی میں تصفیہ ہوگیا الزام روایتی سیاہ کاری کا نہیں بلکہ چوری کا ہوگیا اور چور نے چٹی (جرمانہ) و جرگے کا چہارم حصہ بھی ادا کر دیا دونوں قبیلے شیر و شکر ہوگئے۔ مگر وہ لڑکی کیوں مارا گیا؟ آج تک کسی نے انگلی تک نہیں اُٹھایا۔

ایسے ہزاروں حقیقی داستان میرے سماج میں موجود ہیں۔ مگر کوئی بیان نہیں کرتا، آخر کب تک اس خوشامد کی چادر کو اُوڑھ کر پھرتے رہوگے؟ خدارا بند کرو یہ ظلم اور عورت کو اُس کے پیروں پر لا کھڑا کردو اپنے ساتھ اُسے معاشی ترقی کا حصہ بناؤ اُسے اپنی ملکیت اور جائداد یا نام نہاد غیرت کا نشانہ نہ بناؤ۔ وہ بھی انسان ہے اُسے بھی جینے کا پورا حق ہے، عورت کیلئے ہم نے ہمیشہ آسانیاں تو دور بلکہ کٹھن دور لائے ہیں، کم عمر میں شادی اور گھر سے رخصت کرنا، اُس کے رضا و مرضی کے بغیر اُس کا رشتہ کرنا، اپنا پروپٹی سمجھ کر اُسے رشتے کے نام پر بیچنا یا اپنے مدعی کے خون کے عیوض اُن کے حوالے کرنا، حتیٰ کہ رشتوں کے طے ہونے پر یہ فیصلہ کرنا کہ آپ پر ایک پیٹ ادھار ہے مطلب آپ کو پہلی بیٹی جب پیدا ہوئی تو وہ ہمارے گھر بیاہی بھیجا جائےگا، کیا سماج ہے؟ ابھی تک بیٹی ماں کے گود میں نہیں اُس کے مقدر کا فیصلہ طے ہوتا ہے۔

ان کو کیا کہا جائے آخر ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ نے طبقہ ان چیزوں سے نظریں کیوں ہٹایا ہوا ہے؟ کیا یہ بدتہذیب رسمیں اُس کے شعور پر بھاری ہیں؟ کیا وجہ ہیکہ دریا کے کنارے گھر آگ کے نذر ہو رہے ہیں؟ ایسے سینکڑوں سوالات عورت کے حق میں میرے زہن میں موجود کانٹوں کی طرح میرے روح کو چُھب رہے ہیں۔ میں عورت پر ترس نہ کھا سکا مگر اپنی روح کو مزید تڑپنے نہیں دونگا۔ یہ سوالات ضرور اس سماج کے باشعور نوجوانوں کے آگے رکھوگے، اُن سے مخاطب ہونگا اور اُن سے جواب طلب ہونگا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔