شہداد اور احسان کا نوجوانوں کے نام پیغام – توارش بلوچ

221

شہداد اور احسان کا نوجوانوں کے نام پیغام

تحریر: توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان بھی کتنا عجیب ہے، مکاری پر اتر آئیں تو وہ غلیظ حرکتیں سرانجام دیں کہ انسان کو انسان ہونے پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور جب وہی انسان تاریخی عمل کا حصہ بنیں قومی اور عوامی مفادات کے تحت اپنی زندگی کے خواہشات کو قربان کرتے ہوئے مشترکہ عوامی مفاد میں اپنی زندگی جیسے عظیم شے کو قربان کریں تو انسانیت کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ انسان کو انسان ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے، یہی بات اگر قومیت کے دائرے میں آکر کیا جائے تو جب کسی قوم کا فرد غلط اور قوم دشمن سرگرمیوں کا حصہ بنتا ہے تو بحیثیت قوم یہ شرم کا مقام ہوتا ہے اور لوگوں کو افسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے قوم سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اگر اسی قوم سے جڑے کوئی فرد تاریخی عمل کا کردار بنیں تو انفرادی طور پر ہر شخص کو اس قوم کا حصہ ہونے پر فخر ہوتا ہے۔

کچھ مہینوں سے میں اپنے اندر پریشانی میں مبتلا تھا، مجھے یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ ہمارا نوجوان طبقہ انتہائی غلط راستے کی طرف جا رہی ہے، آج کے موجودہ دور میں ہمارے نوجوانوں کے مکالمہ اور بحث و مباحث، سی پیک، بلوچستان میں میگا پروجیکٹس، مذہبی انتہا پسندی کی بلوچستان میں مضبوط جڑیں، انقلابی لٹریچر، قومی آزادی کیلئے ہونے والی جدوجہد میں تیزی و سستی، کمزوریاں اور کامیابیاں، نوجوانوں کو قومی سوچ سے نکال کر انفرادی زندگی میں ڈالنے کیلئے ریاستی حربے، خطے خاص بلوچستان کے ساتھ جڑے ایران اور افغانستان کے موجودہ سیاسی و جغرافیائی تبدلیاں، امریکی پالیسیاں، چین کے توسیع پسندانہ عزائم، سعودی عرب کے مستقبل میں گوادر میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندیاں، تعلیمی اداروں کے اندر ریاستی حکمت عملیاں وغیرہ وغیرہ کے بجائے قومی طلباء تنظیم کی پابندی کا فائدہ اٹھا کر کچھ سازشی عناصر جن کا حربہ بلوچ طلباء کے اندر ابہام و تفہیم پھیلانا ہے، جن کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو ان کے اصل مسئلے یعنی قومی غلامی کے فکر و سوچ سے نکال نام نہاد خوش نما نعروں کے اندر زندہ رکھنا ہے، جن کا قومی سوچ و اپروچ صفر ہے، جن کا قومی تحریک اور بلوچ بقاء و بلوچ قومی تحریک سے ایک فیصد سروکار نہیں، جن کا مقصد قومی تحریک کے بارے میں عوام کے اندر ابہام پھیلانا ہے، جو سیاسی و علمی سوچ سے مکمل طور پر عاری ہیں، جن کی تعلیم و تربیت انتہائی محدود چار کتابی باتوں تک ہے۔ جنہیں زمینی حقائق کا ایک فیصد علم نہیں ہے۔

بلوچ طلباء بالخصوص وہ نوجوان جو پنجاب میں تعلیم کے غرض سے چلے گئے ہیں، انہیں غلط راستے کی طرف لے جانے کی بھرپور کوشش جاری ہے، جنہوں نے طلباء کو اپنے مخصوص انفرادی اور ذاتی مفاد میں استعمال کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال میں لائے ہیں، جو طلباء کے انر سرکلز میں بیٹھ کر اور ان کا توجہ حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو قومی تحریک کا حصہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ عوامی جگہوں اور اپنے تنظیمی سرکلز میں بلکہ جب اور جہاں موقع ملتا ہے قومی تحریک کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی موقع پرستانہ جدوجہد سے کئی نوجوانوں کے ذہنوں میں قومی تحریک کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے، کہیں یہ لوگ قومی تحریک کو سوشلزم کے ڈگر پر لانے کی بات کرتے ہیں تو کہیں یہ قومی تحریک جس نے بلوچ خواتین کو عملی طور سیاست اور خاص قومی تحریک کا حصہ بنایا ہے پر عجیب و غریب سوالات چھوڑ دیتے ہیں، تنقید کے نام پر قومی تحریک کے خلاف باقاعدہ ریاستی مہرے کے حساب سے عمل سرانجام دیتے ہیں لیکن شہداد و احسان کی شہادت کی خبر نے ایک جانب مجھے انتہائی غم میں ڈبو دیا تو دوسری طرف دل کو ایک ٹھنڈک سی ہوگئی کہ یہ شہادت ان نام نہاد اور قومی تحریک دشمن عناصر کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو برسوں سے اپنی انفرادی اور ذاتی مقاصد کیلئے نوجوانوں کو ورغلانے اور اپنی منافقت سے انہیں بہکانے انہیں ذاتی زندگیوں میں مصروف کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل تھے جبکہ ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت نوجوانوں کو ذہنی طور پر پرامن کرنا جبکہ ان کے ذہن میں مزاحمتی سوچ کو ختم کرنے کے حربہ استعمال کرنا شامل تھا، جبکہ شہداد اور احسان کی شہادت نے مکار دشمن، بلوچ عوام خاص کر بلوچ نوجوانوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ قومی آزادی کی تحریک کیلئے سب سے موثر اور کامیاب طریقہ کار کیا ہے۔ جبکہ ایک مرتبہ پھر ریاستی پروپگنڈہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو برسوں سے جھوٹ پھیلانے کی جدوجہد میں ہے کہ یہ جدوجہد چند سرداروں کا کھیل ہے (جبکہ حقیقت میں آج ان سردار جن کا تعلق قومی تحریک سے ہے ان کی پوزیشن قومی تحریک میں کیا ہے سب کے سامنے عیاں ہے جس کی وضاحت دینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے)۔

شہداد اور احسان کو حاصل ہونے والی فلسفیانہ سوچ، پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں تعلیم، مارکس اور لینن کی کتابیں، اسلام آباد کی پرسکون و پرامن زندگی، تمام زاتی و انفرادی خواہشات کی رسائی سمیت دنیا کی تمام تعلیم نے انہیں اس سوچ سے کبھی غافل نہیں کیا کہ قومی آزادی کا واحد جبکہ اہم ستون مسلح جدوجہد ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔