سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 13 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

176

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر | گوادر بندرگاہ

ماہی گیری کے علاوہ بھی ہمارے سمندر کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ گوادر کے باشندے تو کبھی تبدیل نہ ہوسکے، البتہ ملکیت پاکستان کی 6 ستمبر 1958ء کو ہوگئی جب اس نے تین ملین پاؤنڈ اومان کو ادا کر دیے۔ گوادر کا ایک حصہ نیوی کے استعمال میں ہے۔ جیوانی تو سب کو معلوم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ایک اہم ہوائی بحری چھاؤنی ہوا کرتا تھا۔

2002ء میں چین کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا۔ پھر گوادر بندرگاہ کے پہلے فیز کا کام مکمل ہونے کے بعد 20 مارچ 2007ء کو اس منصوبے کا افتتاح ہوا۔ چین کے فنی و مالی تعاون سے 16 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی یہ بندرگاہ ایک معاہدے کے تحت پورٹ آف سنگاپور اتھارٹی کے حوالے کی گئی۔ اس کی گہرائی 14.5 میڑ اور چینل کی لمبائی 5 کلو میٹر ہے۔ جب کہ کثیرالمقاصد 210 میٹر چوڑی تین برتھیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ یہاں بڑے سے بڑا جہاز بھی لنگر انداز ہوسکتا ہے۔ پھر کوئٹہ اور اسلام آباد کے ”مافوق البشر“ دماغوں نے ایک اور”جامع“ منصوبہ بنا ڈالا۔ گوادر میں ڈیپ سی پورٹ تعمیر کرنے کا۔ جو اُن کے بقول کراچی اور پورٹ قاسم کے بعد سب سے بڑی بندر گاہ ہوگی۔ ان کے اعلان کے مطابق یہ بندر گاہ وہ شاہ کار ہوگی جو کہ سری لنکا، بنگلہ دیش، اومان، متحدہ امارات، سعودی عربیہ، قطر، عراق اور ایران کے ساتھ تجارتی ٹریفک میں اہم کردار ادا کرے گی۔ وہ اسے افغانستان سمیت خشکی میں گھری ہوئی بیچاری وسطی ایشیائی ریاستوں یعنی ازبکستان، تاجکستان، کرغیزستان، قازکستان، اور ترکمانستان تک اپنی تجارت، نظریات اور اثر رسوخ کی رسائی کا بھی ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ افسران، گوادر ڈیپ سی پورٹ پر کارگو کی عالمی معیار والی سہولتیں عطا کریں گے۔ اس پورٹ کے ساتھ انڈسٹریل زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زون کے قیام، آئل سٹوریج اور ریفائننگ کی سہولتیں بھی ”اتریں“ گی جس سے بلوچستان کے سمندر اور ساحل پر ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ گوادر ڈیپ سی پورٹ کے اس عرشی منصوبے کے تحت چار کثیرالمقاصد برتھ اور پورٹ کی بنیادی ضرورتیں مہیا ہوں گی۔ حاکموں کی کس کس نیت پر شک نہ کیا جائے؟۔ بد بخت ”انشا اللہ“ تک نہیں کہتے۔
مگر ایک سلسلہ اور بھی ہے۔ افغانستان، ترکمانستان اور پاکستان نے دولت آباد سے براستہ افغانستان گوادر تک 1500 میٹر طویل گیس پائپ لائن دو ارب ڈالر سے تعمیر کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ (پھر بغیر وضو کے منصوبہ بنایا!)۔

پھر 2003 اور اس کے بعد گوادر ہی کا میگا پروجیکٹ بورژوا دانش وروں کی بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ امیر امان اللہ خان سے لے کر ملا عمر تک اگر پشتون قوم کے لیے داڑھی مصیبت بن چکی ہے (اول الذکر نے داڑھی کاٹنے یعنی شیو کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ جب کہ طالبان والوں نے سو سال بعد داڑھی مکمل طور پر چھوڑنے کا حکم دے رکھا تھا) تو گوادر ہم بلوچوں کے لیے ایک مصیبت بن چکا ہے۔ اس کو جوں کا توں بھی نہیں رکھا جاسکتا ہے مگر اس کی ترقی بھی دوسروں کے توندوں کا سامان کرے گی۔ پنجابی سامراجیت آئے نہ آئے نظر تو آتی ہی ہے۔ ایکڑوں مضامین اس کی تعمیر کے حق میں اور اس کی مخالفت میں لکھے گئے مگر ان میں دلیل، اعداد و شمار، نفع نقصان کسی بات کا تذکرہ نہیں۔ مقبولیت و پاپولسٹ بننا اہلِ قلم کے لیے ایڈز سے بھی بڑا ڈیتھ وارنٹ ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوست نے تو یہاں تک کہا کہ ان سیکڑوں مضامین لکھنے والوں میں 90 فیصد نے گوادر دیکھا تک نہیں۔

0.25بلین ڈالر کی لاگت سے گہرے سمندر کا یہ میگا پورٹ پاک چین مشترکہ تعاون سے بن رہا ہے۔ ”چائنا ہاربر انجینئرنگ  کمپنی“ اسے تعمیر کرر ہی ہے۔ کمپنی نے اپنا کام مارچ 2002ء کو شروع کیا تھا اور زور و شور سے کام جاری ہے۔ اس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ 2004 ئتک اس پروجیکٹ کو مکمل کر دے گی۔ اس کی تعمیر کی ٹھیکہ دار کمپنی ”چائنا ہاربر انجینئرنگ کمپنی“ نے اپنا کام مارچ 2002ء کو شروع کیا تھا۔ چین والوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک اس بندرگاہ سے مستفید ہونے والوں میں سب سے پہلے نمبر پر ہے اس لیے کہ چین اپنی مغربی بندرگاہوں سے مال گوادر بھیجا کرے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی مشرقی بندرگاہوں سے راستہ بہت لمبا پڑتا ہے۔

اس ڈیپ سی پورٹ کی تکمیل کے لیے تین مرحلے بنائے گئے ہیں۔ پہلا مرحلہ چینی کمپنی کے بقول 2004ء میں مکمل ہو جائے گا، جس میں تین کثیر المقاصد برتھوں کی تعمیر شامل ہے جن کی کل لمبائی 600 کلو میٹر ہوگی۔ (یعنی ہر ایک 200میٹر کی)۔ اس کی تکمیل سے سر زمین بلوچستان کی گوادر بندرگا پر 50 ہزار DWTوالے بحری جہازوں کی آمد و رفت ممکن ہوسکے گی۔

دوسرے مرحلے میں دو کنٹینر برتھ،Bulkکار گو ٹرمینل،Roll on /Roll offٹرمینل، دو آئل Pires کی تعمیر شامل ہے۔ (1)
ظاہر ہے اس میں بہت بڑے پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے پاور سپلائی، واٹر سپلائی، آگ بجھانے کی بڑی مشینری، ماحولیاتی تحفظ کا پروجیکٹ، ٹیلی کمیونی کیشن، کمپیوٹرائزڈ مراکز کی موجودگی، تیل گیس اور پیٹرو کیمیکل ترقی، پراسسنگ زون، صنعتی علاقوں، رہائشی علاقوں کی موجودگی اولین شرط ہے۔ (سرمایہ داری نظام اور ماحول کا دیکھ بحال؟۔ چین اور ماحولیاتی ماحول کا خیال؟ لاحول و لا قوت!)۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔