کوئٹہ میں ڈاکٹروں کا احتجاج، پولیس تشدد کے بعد سروسز کا بائیکاٹ

225

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے کورونا وائرس کی حفاظتی کٹس کی دستیابی کے لیے احتجاج کے دوران پولیس تشدد کے خلاف سروسز کا بائیکاٹ کردیا۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں میں خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر اور طبی عملہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی کٹس کی فراہمی کے لیے احتجاج کے دوران سول اسپتال سے مارچ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ پہنچے۔ جہاں پولیس نے مظاہرین کو روکا، جس پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان لفظی تکرار شروع ہوگئی، جس نے پرتشدد صورت حال اختیار کرلی۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔

پولیس تشدد اور ڈاکٹروں کی گرفتاری کے خلاف ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر یاسر خان خوستی نے دیگر ڈاکٹروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے کہا کہ ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں، ایمرجنسی اور ٹراما کو بند کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حفاظتی کٹس کے بغیر ڈاکٹر اور ان کے اہلخانہ کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں، ہمیں ضرروی سامان نہیں دیا جارہا اور حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم چین سے ڈاکٹر لے آئیں گے۔

ڈاکٹر یاسر خان خوستی نے کہا کہ احتجاج کرنے پر ہمارے 100 کے قریب ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا۔ ہمارے ڈاکٹر لاٹھی چارج کے باعث زخمی ہوئے ہیں، ہمیں دہشت گردوں کی طرح مارا گیا، حکومت جو کچھ کرتی ہے کرے ہم سروسز کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں۔

صحافی حامد میر نے کوئٹہ میں ینگ ڈاکٹروں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دیکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ کوئٹہ میں پولیس طبی معاون اور ڈاکٹروں پر تشدد کررہی ہے جو صرف مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں معیاری طبی کٹس دیئے جائے تاکہ وہ کرونا سے متاثرہ لوگوں کو علاج کر سکیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن بلوچستان اسمبلی ثنا بلوچ نے اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر کہا کہ جس طرح پولیس کے ہاتھ میں ڈنڈے، وردی، بندوق اور گولیاں عوام سے نمٹنے کیلے فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹروں کو کرونا سے لڑنے کیلئے ماسک، حفاظتی وردی، PPEs اور حوصلہ، اعتماد و  مکمل تعاون کی ضرورت ہے- لیکن بلوچستان میں ڈاکٹروں کو مسلسل اذیتوں کا سامنا ہے۔