آٹھ مارچ اور بلوچ خواتین – ذکیہ بلوچ

163

آٹھ مارچ اور بلوچ خواتین

تحریر: ذکیہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎ آٹھ مارچ عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن کو خواتین کو درپیش مسائل زیر بحث ہوتی ہیں اور عورت پر ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھایا جاتا ہے۔ اگر بات عورت مارچ کی ہو رہی ہو اور اس پر ہوئے ظلم کی بات ہو رہی ہو تو اس دن کے لیئے بلوچ خواتین کے لیے آواز اٹھانا لازمی ہے۔

بلوچستان میں آج جس طرح کے حالات چل رہے ہیں، یہ پوری دنیا سے پوشیدہ نہیں ہے، بلوچ قوم 70 سالوں سے ریاست پاکستان سے اپنی آزادی اور بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں، جہاں پر بلوچستان کے حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اب بلوچستان کے حالات ایسے ہیں کہ آئے روز نوجوان، بوڑھے، بچے اور خواتین کو اغواء کیا جا رہاہے، بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اب سنگین ہوتا جارہا ہے، پھر ان گمشدگان افراد میں عورتوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی شامل ہے۔

بلوچستان میں خواتین کئی سطح سے ریاست پاکستان کے ظلم جبر کا نشانہ بن رہے ہیں،جیسے یونیورسٹیز اور کالجوں میں کیمرہ لگا کرخواتین کو حراساں کرکے انہیں تعلیم سے دور کرنا، یا پھر خواتین کو گھروں سے اغواء کرکے ان پر تشدد کرنا، یا کئی سالوں تک ان کو نامعلوم قید خانوں میں بند کرنا۔ یا چھوٹے چھوٹے معصوم بچیوں کے ساتھ پاکستانی فوج کے سپاہیوں کا زبردستی کرنا، یا پھر ماوں سے ان کے جوان سال بیٹوں کو کئی کئی سالوں تک دور کرکے انہیں ذہنی مریض بنانا، گو ریاست پاکستان میں ہر طریقے سے بلوچ خواتین کو ظلم و جبر کا نشان بنایا جا رہا ہے۔

‎حال ہی میں بلوچستان میں جو خواتین اسٹوڈنٹس کے ساتھ ہوا، جہاں پر ان کو یونیورسٹی میں لگے ہوئے کیمروں میں ریکارڈ کرکے حراساں کیا گیا، جس کی وجہ سے کئی خواتین طلبا اپنی تعلیم بیچ میں چھوڑ کے چلے گئے، بعض طلبا کو تو ان کے گھر والوں نے اپنے بے عزت ہونے کے خوف سے نکال دیا۔

‎ ایک تو بلوچستان یونیورسٹی کو مکمل طور پر ایک فوجی چھاونی بنایا گیا اور بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء کو جس طرح سے حراساں کیا، وہ سب فوج کے زیر نگرانی میں ہوا اور ایک سازش کے تحت ہوا تاکہ بلوچ طلبا کو تعلیم سے دور کیا جائے خاص کر خواتین کو کیونکہ ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب پورے خاندان کا تعلیم یافتہ ہونا ہے، تو دوسری طرف بی ایم سی کے فیمیل اسٹوڈنٹس کو آدھی رات کو ہاسٹل سے بے دخل کر کے نکالنا اور ان کو سڑکرں پر بیٹھنے پر مجبور کرنا۔

سب سے بڑی نا انصافی یہ ہے کہ فوج کے سپاہیوں کا چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنا، جیسے کہ بلوچستان کے علاقہ آواران میں اسکول کے اندر ایک (12 ،13 ) سالہ چھوٹی بچی کے ساتھ فوجی سپاہی کا زیادتی کرنا، جس کے بعد سے بلوچستان کے عوام میں اتنا خوف اور ڈر پھیلا ہوا ہے کہ جس اسکول کے راستے میں اگر کوئی فوجی چھاونی آتی ہو یا پھر سکول کے قریب کوئی فوجی چھاونی واقع ہو تو وہان کے لوگ اپنے بچیوں کو اسکول جانے نہین دیتے یا تو خود بچیاں اسکول جانے سے ڈرتے ہیں۔

بلوچ قوم میں باہوٹ کا رواج صدیوں سے چلا ارہا ہے حالانکہ باہوٹ کا مطلب کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنا اور اس کو اپنے گھر میں پناہ دینا اور اسکے مدد کر کے اسکے مسئلے کو حل کرنا لیکن بلوچستان میں ان سردار اور میر ٹکریوں نے اس رسم رواج کی وجہ سے عورت کو غلام بنانے کا ایک اور زریعہ بنا دیا ہے، یہ خواتین اپنے کچھ غلطیوں یا کچھ مجبوریوں کے وجہ گھر سے بھاگتے ہیں، جس سے یہ میر،اور سردار انکے مجبوری کا فائدہ اٹھاتےہیں اور یہ اپنے فائدے کے لیئے اس وقت ان کے مسئلے کو تو حل کردیتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں ان معصوم عورتوں کو عمر بھر کے لیے اپنا غلام دیتے ہیں، پھر یہ میر اور سردار ان خواتین کی شادیان زبردستی سے اپنے سپاہیوں کے ساتھ کردیتے ہیں اسکے بعد یہ خواتین نسل در نسل ان میر اور سرداروں کے غلام بن جاتے ہیں، یہ امیر زادے ان خواتین پر طرح طرح کے ظلم کرتے ہیں مار پیٹ کرنا گالی گلوچ کرنا گویا ہر طرح کے ظلم زیادتی ان مظلوم خواتین پر کی جاتی ہے۔

بلوچ قوم ایک دہائی سے ریاست پاکستان سے اپنے آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن یہاں تو اس کے قوم کے ایک حصے کو ان کے اپنے ہی میر اور سردارون نے غلام بنا کر رکھا ہے جہاں پر ان ریاستی غلاموں نے ایک رواج کو ایک قوم کے لیے غلامی کا سبب بنا دیا ہے۔

‎پھر ان میر اور سرداروں کے فہرست میں اول نمبر پر سردار ثنااللہ زہری ، اسرار زہری ،نصیر موسیانی ،کوہی خان مینگل جنہوں نے ایک بلوچی رسم کے آڑ میں بلوچ خواتین کو اپنے گھر میں باہوٹ بنا کر غلام بنا دیا ہے اور آج کے دور میں بھی انکے گھروں میں کئی خواتین باہوٹ بن کر غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

صدیوں سے یہ چلا آرہا ہے کہ ہر دور میں عورت کو کمزر بنانے والا اس دور کے رسم رواج ہوتے ہیں، کھبی وہ رسم و رواج کے آڑ میں نا انصافی کی بھینٹ چڑھتی ہے تو کھبی مذہب کے نام پر ناانصافی برداشت کرتی ہے۔

اس سماج میں عورت ذات کو اپنے خود مختاری کا کوئی حق نہیں، جہاں پر وہ اپنے ذات کے مسئلے خود حل کر سکے، کبھی وہ باپ کے ماتحت ہوتی ہے، کبھی شوہر کی، تو کبھی بیٹے کی، ہر دور میں اسے اپنے آزادی کے لیے خود آواز اٹھانا پڑا ہے، اگر عورت اپنے ساتھ ہر ناانصافی کو یوں خاموشی سے سہتا رہا، یہ دنیا اور اس کے رسم رواج اس کے وجود کو ہی ختم کر دیں گیں۔

اسی طرح آج جو ظلم بلوچ خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے، اگر وہ اس ظلم پر خاموش رہے اور بلوچی رسم و رواج کی خاطر خود کو قربان کرتی رہی، تو کل یہی قوم ہمیں ہماری قربانیوں کو فراموش کر دیگا ۔ عورت کو اب خود اٹھنا ہوگا اپنی عزت کی خاطر اپنے وجود کی خاطر، اپنی آزادی کی خاطر۔

‎ اب خواتین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج ریاست پاکستان ہمارے ساتھ جو بھی کر رہا ہے، وہ بلوچستان کے آزادی کے تحریک کو ختم کرنے کیلئے کررہا ہے، جب ہم اس تحریک کا حصہ نا ہوتے ہوئے بھی اس ظلم کا شکار بن رہے ہیں، تو اس سے بہتر یہی ہوگا کہ ہم اس مسلح تحریک کا حصہ بن کر اپنے ساتھ ہوئے ہر نا نصافی کا بدلہ لیں، اگر دیکھا جائے تو جس طرح سے مرد حضرات پر اپنے مادر وطن کا قرض ہے اور اپنی آزادی اور بقا کے لیئے یہ جنگ فرض ہے تو اسی طرح اب اپنی مادر وطن کے لیئے اور اپنے بقا کے لیئے ہم عورتوں کو بھی اٹھنا ہوگا اور یہ ہم پر بھی اپنے مادر وطن کا قرض ہے۔

جنگ کے میدان میں بھی عورت نے مثالی کام سر انجام دیئے ہیں، چاہے وہ جنگ جمل میں اماں عائشہ کا کردار ہو یا پھر آج کے دور میں کردش خواتین کا اپنے سر زمین کے لیے جنگ ہو ۔ آج ہمیں بھی وطن کی خاطر اور عورت کے وجود کی خاطر ایک اہم فیصلہ لینا ہوگا، دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ عزت کے نام پر عورت کا استحصال نامنظور ۔
‎اپنے عیش عشرت کے خاطر عورت کا خریدو فروخت نامنظور ۔
‎رسم رواج کے نام پر عورت کو غلام بنانا نا منظور۔
‎مذہب کے نام پر عورت کو قید کرنا نا منظور۔
‎جنگ میں عورت کو ہتھیار کی طرح استمعال کرنا نا منظور۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔