کیا یہ دیدگ کا دیوانہ پن تھا؟ – فرید شہیک

290

کیا یہ دیدگ کا دیوانہ پن تھا؟

تحریرفرید شہیک

دی بلوچستان پوسٹ

بنی نوع جہاں کئی فطری عمل  سے گزرتا ہے وہیں یہ فطری عمل بھی اس کی کھٹن زندگی کا ساتھی رہتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے اور اس جہاں میں کیوں آیا ہے؟ اپنی وجود کی لڑائی میں یہ سوال اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکالتا جب تک وہ اپنے وجود کو تلاش نہیں کرلیتا اور تسکین نہیں پا لیتا وہ اسی معمہ کے نئے صفحے کھولتا رہتا ہے اور کسی دن اپنی وجود اور پہچان کو تلاش کر لیتا ہے تو وہ اس نظام ہستی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اس انسانی معاشرے کے ہر اس وجود کو اچھی طرح بھانپ لیتا ہے اور انسانی تاریخ پر جو ظلم مرتب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں چاہے وہ نو آبادیاتی نظام کی ہوں ، نہ انصافی پر ہوں یا انسانی ظلم و جبر، معاشرتی ، طبقاتی اونچ نیچ پر ہوں یا ایسی کوئی بھی سوال جو شعور کو بیداری کا راستہ دکھاتا ہے جو ایک انقلابی کے لئے اشد ضروری ہوتا ہے کہ اپنے زمہ داریوں کی اسے اچھی طرح سے واقفیت ہو اور انھیں مستقل مزاجی سے سر انجام دے اور اپنے قوم کے ہر اس درد و غم کو محسوس کرے اور وقت آنے پر عمل بھی کرے یہ خیالاتی کرب و اذیت ہر اس حساس وجود کے لاشعور کے خانے میں بیٹھ جاتے ہیں اور اسے اندر سے کوستے اور ورغلاتے رہتے ہیں اور آخرکار کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک عملی راستہ اپناتے ہیں ان ناانصافیوں کے خلاف ایک جدوجہد کی شروعات کرتے ہیں اور اسی جدوجہد میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں آخرکار وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں اور وہ انسان اور انسانیت کی سلامتی کے لئے امر ہو جاتے ہیں

میں آج جس شخص کے بارے میں اپنے جذبات کو لفظوں کا سہارا دے رہا ہوں وہ انسان بھی ان ہی عملی انسانوں میں سے ایک انسان ہیں جو انسانیت کی شان مانے جاتے ہیں کیونکہ انہی کی بدولت قومیں زندہ رہتی ہیں اور قوموں کی سلامتی انسان کی سلامتی ہے اور انسان کی سلامتی اس کائنات کی سلامتی ہے، وہ مرد مجاہد جسے ہم دیدگ جان کے نام سے جانتے تھے۔

 شہید دیدگ جان سے میرا پہلا  ملاقات  2014 کو کسی محفل میں ہوئی تھی جب شہید دیدگ جان پر پہلی مرتبہ نظر پڑی وہ مجھے انتہائی معصوم اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رکھنے والے نوجوان دکھائی دیتے تھے میں نہیں جانتا تھا کہ یہ کون ہیں کسی دوست نے دیدگ جان کی مجھ سے تعارف کرائی اور اسی دوست سے پتا چلا کہ دیدگ جان کے والد کو مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے شہید کیا ہے تو میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ شہید دیدگ جان اس عمر میں اتنا بڑا بوجھ کیسے اٹھا سکتے ہیں کیونکہ شہید دیدگ جان اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں اور گھر کی ساری ذمہداری انہی کے سر پر جاتا ہے اور وہ خود بھی ایک سرمچار ہیں نجانے کتنے مصیبت ہونگے ایک ایسے انسان پر جو ابھی جوان ہوئے ہے، میں ایسی ہی یادوں کی خزاں میں خشک پتے کی مانند اڑ رہا تھا کہ اسی لمحے شہید دیدگ جان کی آواز نے مجھے اپنی طرف راغب کی جب وہ کسی دوست کے ساتھ مذاق کرکے ہنس کر رہے تھے میں بھی وہیں گیا اور خود دیدگ جان کی باتوں سے مصروف کرنے کی کوشش کی تو اسی لمحے میں دیدگ جان سے سوال کیا جب وہ بلوچستان اور بلوچ قوم پر اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہا تھا تو میں نے پوچھا آپ بہت چھوٹے ہیں آپ کو پڑھنا چاہیے یہ عمر آپ کا بندوق اٹھانے کا نہیں بلکہ پڑھنے کی عمر ہے تو دیدگ جان نے مسکراتے ہوئے میرے سوال کا جواب دیا کہ قلم کہاں ہے کہ میں اٹھاؤں بلوچ قوم کے لئے بس ایک یہی راستہ بچاہے ۔

قبضہ گیر پاکستان نے میرے والد کو  شہید کیا صرف اسی وجہ سے کہ وہ بلوچ تھے اور بلوچ قوم کا خیرخواہ تھا، تو میں خاموش ہوا اور اپنے سوال پر غور کرتا رہا شاید یہ میرا دیدگ جان سے آخری ملاقات تھا، ہمارا وقتا فوقتا فون پر حال و احوال ہوتا رہتا تھا۔
جس انتہا کی محبت اور عشق تھا دیدگ جان کو ان پہاڑی، چشموں اور ندی نالوں سے یہ نظارے ہمیشہ انہی کا گیت گاتے رہیں گے اور ہمیشہ یہ بیابان اور دشت دیدگ جان کی عکاسی کرتے رہیں گے اور جس جرات و جوان مردی کا حامل دیدگ جان تھے وہ بلوچ قوم کے ہر ماں بہن اور یتیم بچوں کے دلوں پر راج کرتے رہیں گے اور بلوچ قومی تحریک میں سنہرے لفظوں میں یاد کئے جائیں گے۔

جب مجھے پتا چلا کہ دیدگ جان ہمیشہ کے لئے امر ہوئے تو مجھے دیدگ جان کے ساتھ گزارے ہوئے ہر وہ لمحے یاد آتے رہے جو میں نے اس کے ساتھ گزارے ہیں مجھے وہ ہر سفر یاد آنے لگے جو ہم نے دشوار گزار پہاڑیوں میں کئی بار اکھٹے طے کی ہیں اور میرے وہ سوالات اور دیدگ کا وہ تاثر شاید کبھی میرے یادوں کی پہاڑی سے نیچے اترے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔