عالمی یوم انسانی حقوق: کوئٹہ میں احتجاجی مظاہرہ

175

انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرہ بلوچستان میں متحرک تنظیموں بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا، مظاہرے میں انسانی حقوق کے کارکنان، سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اور بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے میں شرکاء نے بلوچستان میں ماورائے عدالت گرفتاری و قتل، فوجی آپریشنوں، جبری گمشدگیوں سمیت غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور حکومت سمیت اعلیٰ حکام و اداروں سے اپیل کی گئی کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیکر انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان پامالیوں میں شریک عناصر کو قانون دائرے میں لاکر ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

انسانی حقوق عالمی دن کے موقعے پر بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے بلوچستان سمیت بیرون ممالک میں خصوصی طور پر آگاہی مہم و احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر سیاسی پر بھی اس حوالے سے آگاہی مہم چلائی جارہی ہے۔

کوئٹہ میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے جب زندگی کے مختلف شعبوں سے متاثرہ علاقوں آواران اور ڈیرہ بگٹی سے خواتین اور بچوں کو ماورائے عدالت گرفتار کیا جاتا ہے اور جب اس گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا میں پھیل جاتی ہیں تو انہیں مسلح سرگرمیوں میں ملوث قرار دینے کیلئے جالی پروپیگنڈہ کرکے ان عورتوں پر جعلی مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔

بی بی گل بلوچ کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ یہاں سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے کو دبایا جاتا ہے اور سیاسی کارکنان کو ماورائے قانون و آئین جبری طور لاپتہ کیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں جنگلوں، ویرانوں میں پھینک دی جاتی ہے یا انہیں اجتماعی قبروں میں بغیر ڈی این اے کے لاوارث قرار دے کر دفنا دیا جتا ہے۔

بی ایچ آر او چیئرپرسن کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی قانون انسان کے بنیادی حقوق کو چھیننے کی اجازت نہیں دیتا لیکن بلوچستان شاید دنیا کا ایک ایسا بدنصیب خطہ ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر ان قوانین کا مذاق قانون نافذ کرنے والے ادارے خود ہی اڑاتے ہیں اور دن کی روشنی میں پبلک مقامات سے لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے تاکہ خوف کا ایک ماحول قائم ہوسکے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیربلوچ نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا انسانی حقوق کی پامالیوں پر پاکستان کے تمام ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں بلکہ ملک کے تمام اعلیٰ ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے شریک کار ہے، میڈیا، عدالتیں، انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں پر لب کشائی سے خوفزدہ ہے، اسی خوفزدگی کے عمل کی وجہ سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم گذشتہ کئی عرصے سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف مختلف ذرائع سے آواز اٹھاتے رہے ہیں لیکن اعلیٰ ادارے اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں بلکہ مزید خوف کے ماحول میں اضافہ کرکے ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ہنگامی بنیادوں پر نوٹس لیکر انسانی زندگی کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔