راز اتحاد – لالا ماجد

214

راز اتحاد

‎ تحریر: لالا ماجد

دی بلوچستان پوسٹ

‎معمولاتِ زندگی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو روزانہ سیکنڈوں لوگ بازاروں کا رخ کرتے ہیں۔ کوئی راشن بیچنےتو کوئی خریدنے، کوئی محنت مزدوری کرنے کے غرض تو کوئی کسی ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ گپ شپ، چائے اور سگریٹ نوشی کے مزے لے رہا ہوتا ہے. اور کچھ خواتین و حضرات تو ایسے ہی گھومنے کے لیے بازاروں کا سمت لیتی ہیں جسے عام زبانوں میں “ٹائم پاس کرنا” کہتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے کام کے اندر مگن رہتا ہے کسی کو کسی کا خیال نہیں۔
‎ اتنے میں وہاں ایک ہولناک حادثہ ہو جاتا ہے۔ جس کے آواز سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ کہ یہ حادثہ کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ اس حادثہ سے پہلے جو لوگ اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ وہ سب کے سب متحد ہوکر ایک سمت بھاگنے لگتے ہیں۔ جہاں وہ حادثہ پیش آیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن تھے۔ ان سب کا خیال، نقطہ نظر، ایک چیز پر ہوجاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال 21ویں صدی کے لوگوں کے لیے ایک مشعل راہ ہوگی۔ جب ہم اسے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس آج ہم اتحاد کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے اس عمل میں لگے ہوئے ہیں جو باعث ہلاکت ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے سر پر تاج ہو لیکن اگر جسم کے باقی حصے مفلوج ہوں تو تاج بے رونق نظر آتا ہے۔

‎مگر اس تاج کا کیا فائدہ جس میں اتحاد ہی نہ ہو۔ کیونکہ جب پہننے کے لئے کپڑے نہ ہو تو سر پر ٹوپی ہو یا تاج ہو انسان ننگا ہی دکھتا ہے۔ یہی حال آج ہمارے بلوچستان کا بھی ہے۔ یہاں جو اتحاد کی بات کرتا ہے تو اسے جاھل سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے ان کا حل اتحاد کے بغیر ممکن نہیں۔ جب آپ بات کریں عزت کی، غیرت کی، لاپتہ افراد کی، طلباء تنظیموں کی اور عورتوں کے حقوق کی تو یہ سب اتحاد سے ہی ممکن ہیں۔ اتحاد کے بغیر کوئی گروہ یا تنظیم ان مسئلوں کو کبھی بھی حل نہیں کر سکتا۔
‎ ہم سب مختلف گروہوں میں، مختلف تنظیموں میں رہ کر ان مسلوں پر آواز اٹھاتے ہیں۔ مگر کتنا فائدہ ہمیں ہوا ہے ان سے بھی ہم لاعلم نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں میں دیکھا جائے تو سب کے مسئلے ایک ہی ہیں۔ مگر ہیروازم میں مبتلا عناصر چاہتے ہیں کہ اتحاد نہیں ان کی انا مسلوں کو خود ہی حل کریگی۔ جس کا نتیجہ ھمیشہ نفی کی صورت میں دیکھا گیا ہے۔ اتحاد سے نامانوس معاشروں نے آج تک صرف زوال کا مزہ چھکا ہے عروج نہیں دیکھا۔ اور ماشاءاللہ سے پارلیمنٹ میں جو ہمارے رہنما ہوتے ہیں وہ آج بھی اس بات سے لاعلم ہیں کہ ہم ڈیلنگ کریں یا ان مسئلوں کو حل کریں۔

‎آج دن تک غریب، لاچار عوام نے صرف ڈیلنگ ہی دیکھی ہے۔ جس کا فائدہ صرف پارلیمنٹ میں بیٹھے پارلیمانی نمائندے ہی حاصل کرتے ہیں۔ پسماندہ اور مظلوم عوام کا کیا ہوگا وہ عوام پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ ہم جس علاقے یا صوبے سے تعلق رکھتے ہیں، اللہ تعالی نے یہاں بیش قیمتی خزانے چھپائے ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں تاج کی نہیں بلکہ اتحاد، اتحاد اور اتحاد ہی کی ضرورت ہے۔

‎اگر ہم خود کو شہد کی مکھیوں سے تشبیہ دیں تو یہ شاید ان مکھیوں کے لیے باعث شرمندگی ہوگی۔ کیونکہ جس طرح شہد کی تیاری ایک بے حد محنت طلب کام ہے۔ بہت سی مکھیاں دن رات محنت کرکے وہ چیز وجود میں لاتے ہیں جس کو شہد کہا جاتا ہے۔ یہ عمل کسی ایک مکھی کا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے بہت سارے مکھیوں کا contribution درکار ہوتا ہے۔ تب کہیں یہ ہوتا ہے کہ شہد کے قابل لحاظ مقدار تیار ہوسکے۔

‎ یہ قدرت کا سبق ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا جس طرح پانی اور پٹرول کے ذخیرے بہت بڑی مقدار میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ اسی طرح شہد کے ذخائر بھی ہوسکتے تھے۔ مگر اس نظام کو اللہ تعالی نے بے حد پیچیدہ نظام سے وابستہ کر دیا ہے۔ جس میں ہمارے لئے بے شمار سبق ہیں۔ جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔
‎ جاپانی امور کے ایک ماہر(william ouchi) کیا خوب کہتا ہے۔
“every activity in japan is group activity ,and not a spring- board to individual glory and personal and advertisement”
‎ اتحاد میں کام کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے۔ کئی افراد کی انفرادی شخصیت بنانے کا مزاج ہو۔ وہ قوم وہ طبقہ، کبھی متحدہ عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اتحاد ہی وہ آسان طریقہ ہے، جو ایک کو کئ بنا دیتا ہے۔ اور کوشش کے عمل کو ہزار گنا زیادہ کر دیتا ہے۔

‎ آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں جس طرح بلوچستان ان تمام سہولیات سے محروم ہیں تو اس کے ذمہ دار ہم ہی ہیں۔ کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں وہ تمام سہولیات موجود ہے جو دوسرے صوبوں کے تعلیمی اداروں میں موجود ہیں؟ کیا ہمارے اسپتالوں میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو دوسرے صوبوں کے اسپتالوں میں موجود ہیں؟
‎ کس کس موضوع کو سامنے لائیں، ہم تو ہر طرح سے دوسرے صوبوں سے پیچھے ہیں۔ اور اس کی وجہ ہم ہی ہیں۔ کیونکہ آج ہم میں اتحاد نہیں ہے۔ کچھ کام آپ کے تب ہی ممکن ہوتے ہیں۔ جب آپ Quantity سے زیادہ Quality پر فوکس کریں اور اتحاد Quality ہی کا منبع ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔