برزکوہی کی تحریر نظریاتی مفرور کے تناظر میں – حکیم واڈیلہ

389

‎برزکوہی کی تحریر نظریاتی مفرور کے تناظر میں

‎تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

‎بلوچ قومی جدوجہد برائے آزادی، بلوچ قومی مسلح مزاحمت، بلوچ قومی سیاست سمیت عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے اپنی منفرد تجزیات و تحریروں کی وجہ سے بلوچ سیاسی و مزاحمتی حلقوں میں منفرد حیثیت و مقام پانے والے کالم نگار برزکوہی کی تحریر “نظریاتی مفرور” کو پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس تحریر کو پڑھتے پڑھتے ایک اور سنیر کالم نگار اور محترم دوست میرک بلوچ کی کچھ باتیں ذہن میں گردش کرنے لگی۔ برزکوہی کی تحریر کے بابت ذاتی حوالے سے بغیر کسی تجزیے و تنقید کے یہ کہہ سکتا ہوں اس تحریر میں لکھی گئی ہر ایک الفاظ سچ اور حقیقت پر مبنی ہے اور برزکوہی کی لکھی گئی باتوں پر عمل کرکے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن کیا ذاتی سوچ، ذاتی خواہش، ذاتی پسند، ذاتی سنگتی یا من پسند دلیلیں ہی سب کچھ ہیں؟ کیا تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھنا، سمجھنا، پڑھنا، جاننا، دلیل دینا، قائل کرنا یا قائل ہونا اور سب سے بڑھکر اپنی سوچ، اپنے خیالات، اپنی آراء کو زیر بحث لائے بغیر اس کو مختلف پہلووں سے گزارے بغیر اپنی بات میں پوشیدہ صداقت اور سچائی جس پر ہمارا کامل ایمان ہو اس سچ کے ساتھ زیادتی نہیں؟

‎برزکوہی کی باتوں کو پڑھکر اس میں پوشیدہ راز کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا کہ ایسی کونسی وجوہات یا حالات ہیں جن کے پیش نظر برزکوہی بلوچ سیاسی ساتھیوں، بلوچ سفارتکاروں یا بیرون ممالک بلوچوں کی انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں اور صحافتی پیشے سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں پر تنقید کررہے ہیں یا انہیں یہ یاد دلانے کی، جھنجوڑ نے کی، ہوش میں لانے کی، حقیقت سے روشناس کرانے کی، انہیں خواب غفلت سے جگانے کی یا انہیں اس سادہ سی بات کو بتانے کی کوشش کررہے ہیں جسے شاید ہم میں سے اکثر بیرون ملک مقیم ساتھی سمجھنے سے قاصر یا سمجھ کر بھی درگزر کرکے اپنے زمینی حقائق کو اِن یخ بستہ ممالک کی حقیقت سے مماثلت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں انسانوں کو اس وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ ملکی آئین و قانون کو ماننے سے انکاری ہوں اور اپنے طور سے زندگی گزارنے کی بات کرتے ہوں ۔

‎یہاں ایک اہم بات جو گزشتہ دنوں سنگت میرک بلوچ نے دوران گفتگو کہی تھی وہ یہ کہ ہمارے ساتھیوں، رہنماوں، دوستوں اور تنظیموں موجود فیصلہ ساز اداروں کو یہ سوچنا، سمجھنا، پرکھنا اور پھر یہ نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ ہمارے جو ساتھی جس کام کو بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں اور یا جو ساتھی جس طرز عمل کی سیاست کرنا چاہتے ہیں کیا ہی بہتر نہ ہوگا کہ ان ساتھیوں کو دوستوں کو اسی طرز کی زمہ داریاں فراہم کی جائیں تاکہ تحریک میں موجود غیر ضروری انتشار اور غیر اہم مسائل پر شب و روز کی کج بحثی پر وقت ضائع کئے بغیر حقیقی مسائل کا مقابلہ کیا جاسکے۔ سنگت میرک بلوچ کے مطابق ایسی مثالیں کمیونسٹ پارٹی میں موجود ہیں، جہاں ساتھیوں کی سوچ و فہم کے مطابق کام اور زمہ داریاں سونپی جاتی تھی تاکہ جس سے تحریک اور تنظیم دونوں ہی انتشار سے محفوظ رہ سکیں۔

‎قومی تحریک یقیناً مختلف پرتوں سے بن کر ایک مکمل اور واضح شکل اختیار کرتی ہے۔ جہاں تمام طریقہ جدوجہد کو بروئے کار لاکر ہی قابض دشمن سے نمٹا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم حقیقی قومی سوال اور قومی مسئلے کو ہی اولیت کا مقام نہ دیں تو؟
‎ کیا آج بلوچستان کا سب سے اہم مسئلہ جبری گمشدگی ہے؟
‎کیا سب سے بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی پامالیاں ہیں؟
‎کیا سب سے اہم ترین مسئلہ لوگوں کی نقل مکانی ہے؟
‎کیا یہ تمام مسائل قومی غلامی سے وابستہ نہیں؟
‎کیا یہ تمام مسائل قومی جہد آزادی کی شروعات کے بعد سے ہی رونما نہیں ہوئے؟
‎کیا قومی تحریک کے ساتھیوں کا آپسی اور اہم ترین رشتہ نیشنلزم کی بنیاد پر قائم نہیں؟
‎کیا دنیاوی قانون کے مطابق اگر کوئی آپ پر حملہ آور ہو تو اس کیخلاف مزاحمت کرنا (جسے سیلف ڈیفنس بھی کہا جاتا ہے) غلط ہے؟
‎کیا ہم مادر وطن میں منظم تحریک کے بغیر عالمی راہ عامہ کو بدلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟
‎کیا ہماری بحیثیت قوم اتنی عالمی طاقت و حیثیت بن چکی ہے کہ بلوچ سیاسی ماحول کو راتوں رات عالمی سیاسی اصولوں پر چلاتے ہوئے جدوجہد کرنے کا اعلان کریں اور دنیا اسی اعلان کے ساتھ ہی بلوچ قومی سوچ اور بلوچ قومی جہد برائے آزادی کے حق میں فیصلہ کریں؟

‎درج بالا سوالات کے جواب یقیناً مختلف ساتھی اور دوستوں کے پاس مختلف ہونگے۔ لیکن ان تمام جوابات کو یکجاہ کرکے اپنی مشترکہ سوچ و فہم کو دلائل و حقائق کی ترازو میں تولنے کی خاطر سب سے اہم و بنیادی شئے ساتھیوں کے درمیان مختلف مسائل کی حل طلبی کی خاطر ڈسکشن، حال احوال اور باہمی اعتماد و احترام کے ماحول کا پیدا کرنا ازحد ضروری ہے ۔ وگرنہ سوشل میڈیا پر، اوپن اسپیس میں کسی کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنانے سے، کسی کو بے علم و خود کو عقل کُل کہنے سے مسائل کا حل کسی بھی طرح سے ممکن نہیں ہوپائیگا اور ہم پھر وہیں زیرو سے شروع کرکے زیرو پر ہی آ کھڑے ہونگے۔

‎ہوسکتا ہے ہماری باتیں ہمارے طریقہ کار ہمارے انداز بیان مختلف ہوں، یہ بھی ہوسکتا ہے ہم نے علم، ادب و سیاسی شعور کی مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا ہو۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھتے ہیں مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہی یہی ہو یعنی مکمل قومی آزادی ہی ہے تو پھر یقیناً باقی تمام چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ جہاں بات بلوچ، بلوچ قومی سوچ، بلوچ قومی بقاء، بلوچ قومی سوال، بلوچ قومی آزادی کی ہو وہاں کوئی بھی قومی آزادی کا جہدکار خواہ وہ ایک سرمچار ہو، یا ایک سیاسی جہدکار، ادیب ہو یا شاعر، اُستاد ہو یا دانشور، انسانی حقوق کا محافظ ہو یا پھر صحافی اُس ایک سوچ اُس ایک بات پر اگر تمام فریق متفق ہیں تو یقیناً یہاں اگر کوئی چیز جو دوری اور ذہنی اضطراب کی وجہ بن رہی ہے تو وہ نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ کمیونیکشن گیپ اور ڈسکشن کی کمی ہوسکتی ہے کیونکہ اگر ہمارے اعمال ہماری جہد ہماری محنت سبھی قومی آزادی کی خاطر ہیں تو ایسا کیوں ہے کہ ہمارے درمیان غیر ضروری طور پر دیوار کھڑی نظر آتی ہے۔

‎اب ساتھیوں کو سوچنا سمجھنا اور عمل کرنا ہوگا کہ آیا ہمیں اب بھی بہت سے تجربات کرنے ہیں یا پھر ہم اپنے گزشتہ تجربات سے سبق حاصل کرکے اپنی پوری طاقت کو یکجاہ کرکے اپنے درمیان موجود معمولی مسائل کا حل نکال کر مزید وقت ضائع کئے بغیر ایک ایسی رابطہ کاری کمیٹی کا قیام عمل میں لائیں جسکا کام ہی ایسے مسائل کا حل نکالنا ہو جو غیرضروری طور پر تحریک پر، عمل پر، ساتھیوں اور تنظیموں کی محنت و مشقت پر اثر انداز ہورہے ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔