یونیورسٹی میں طلباء کو ہراساں کرنے کے خلاف مل کر لڑنا ہوگا – پی وائی اے

203

پی وائی اے بلوچستان نے اپنے جاری پریس رہلیز میں کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں حالیہ دنوں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مختلف واقعات کا انکشاف ہوا تھا جس پر ایف آئی اے نے متاثرہ طالبات کی شکایت پر نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے اسٹاف آفیسرز، لیکچررز اور انتظامیہ کے دیگر اہلکاروں سمیت پانچ ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ  سیکیورٹی سٹاف سے سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بنائے گئے خفیہ ویڈیوز اور دیگر نازیبا مواد بھی قبضے میں لیا گیا ہے، جبکہ ایف آئی اے کے مطابق مزید 200 ملازمین سے تفتیش جاری ہے اور اس کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے جن میں نئے واقعات کا بھی انکشاف ہونا ممکن ہے۔

علاوہ ازیں اس سلسلے میں متاثرہ لڑکیوں نے ایف آئی اے کے حکام کو اپنی شکایات درج کرائیں ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ اب تک اس حوالے سے کوئی واضح موقف اپنانے سے گریزاں ہے، کیونکہ ان سارے واقعات میں یونیورسٹی انتظامیہ براہ راست ملوث ہے۔

 بیان میں کہا گیا کہ پروگریسیو یوتھ الائنس جو کہ ملک بھر میں طلبہ کے حقوق کے لئے سرگرم عمل ہے،جنسی ہراسگی سمیت طلباء کے دیگر بنیادی مسائل اور ایشوز پر ہمیشہ کھل کر اپنے موقف کا اظہار اور جدوجہد کرتا ہے،بلوچستان یونیورسٹی میں حالیہ اسکینڈل کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے بلکہ جنسی ہراسگی کا سلسلہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں شدید شکل میں موجود ہے۔ موجودہ سماج میں عورتوں کا جہاں گھر کے چار دیواری کے اندر دہرا استحصال ہوتا ہے وہی گھر سے باہر بھی ہوتا ہے چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں یا کام کرنے کی جگہیں ہوں،اس تمام صورتحال میں عورت کو ایک شے سمجھ کر استحصال کیا جاتا ہے اور آئے روز ان کے ساتھ ظلم پر مبنی سینکڑوں واقعات سطح پر آتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بے شمار ایسے واقعات ہیں جو معاشرتی دباؤ اور خوف کی وجہ سامنے نہیں آتی۔

یاد رہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کے اپنے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد پر غیر اعلانیہ پابندی ہے جبکہ یونیورسٹی کے اندر طلبہ کی کوئی نمائندہ پلیٹ فارم یا طلبہ یونین موجود نہیں ہے،اور انتظامیہ طلبہ حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے کسی بھی سرگرمی کا راستہ روکے رکھتی ہے تاکہ ادارے کے اندر اپنی من مانیاں اور عیاشیاں جاری رکھنے، کرپشن اور لوٹ مار کرنے، فیسیں بڑھانے اور فیمیل سٹوڈنٹس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لئے ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

 بیان میں کہا گیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے مختلف مظالم، ہراسمنٹ، جنسی جبر، ریپ اور دہرا استحصال جیسے مسائل کی جڑیں اس موجودہ ملکیتی نظام میں پیوست ہیں جس کے اندر عورت کو انسان کے بجائے مرد کی ملکیت سمجھا جاتا ہے اور مرد کی ہوس بھری نظریں عورت نامی “شے” کو اپنی تسکین کے لئے استعمال کرنے پر ٹکی رہتی ہیں۔ اس تمام تر ظلم اور جبر کے خلاف طلباء اور خاص کر طالبات کو مل کر عملی جدوجہد کے اندر آنا ہوگا جہاں ایک طرف اس نظام کے خلاف لڑا جا سکے اور دوسری طرف ان انسان نما وحشی درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔

پروگریسیو یوتھ الائنس ملک بھر میں طلبہ کے اوپر جبر اور ظلم کو روکنے کے لئے جدوجہد کے اندر طلبہ و طالبات کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ اور ہر جزوی لڑائی کیخلاف جدوجہد کو طلبہ کے عمومی جدوجہد کے ساتھ ملاتے ہوئے اس نظام کے خلاف ایک مسلسل لڑائی کرنے کا عزم کرتی ہے۔

جنسی ہراسگی میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ سیاست پر غیر اعلانیہ پابندی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔

بلوچستان یونیورسٹی سے سکیورٹی فورسز کا انخلاء کیا جائے۔

طلبہ یونین کو بحال کیا جائے۔