کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

225

ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ اگر بلوچ نسل کشی و جنگی جرائم میں ڈیتھ اسکواڈ گروپ ملوث ہیں تو ان کو اتنا طاقتور اور جدید اسلحہ و عسکری ساز و سامان اور مالی وسائل سے کس نے لیس کیا اور اس کی ریاستی چھتری تلے اٹھاؤ مارو اور اجتماعی قبروں میں دفن کرو کی سرعام کھلی سرگرمیوں کی اجازت کس نے دی اور ان کی نگرانی اور اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کیوں نہیں کی گئی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے قائم احتجاجی کیمپ میں مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کو 3709 دن مکمل ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے سیاسی و سماجی کارکن لونگ خان، عبدالنبی بلوچ اور دیگر شامل تھے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں اصل قاتلوں کو چھپاکر کٹھ پتلیوں کو سامنے لانے کی بھونڈی کوششیں کی جارہی ہے لیکن ہم ان قاتلوں کو بے نقاب کرتے رہینگے، دنیا جانتی ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ گروپ وہ سب کررہے تھے یا کررہے ہیں جو ان سے ریاستی مسلح قوتوں نے کروایا جو آج انجان بنے بیٹھے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستانی عدالتی کمیشن بھی اُن قاتلوں چھپانے جیسے رپورٹ شائع کرتی ہے، یہ وہی عدلیہ ہے جس کا آزاد اور غیر جانبدار کہنا فیشن بن گیا ہے اس طرح ہم کیونکر یہ امید کرسکتے ہیں کہ پاکستانی ریاست کا آئین و قانون سے ہمیں انصاف مل سکے گا۔

ماما قدیر نے کہا کہ اس تمام تر صورتحال میں پھر بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچ قوم خود پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ریاستی نسل کش جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدل و انصاف کے اداروں سے مداخلت اور انصاف کے حصول کے لیے رجوع کرکے بغاوت اور غداری کا مرتکب ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کو جو کاروائی کرنی ہے کھلے عام اور ان کے اپنے تشکیل کردہ قوانین کے تحت کرے، لاپتہ افراد کے لواحقین یہاں تک مطالبہ کرچکے ہیں کہ اگر ان کے پیاروں کو دوران حراست تشدد سے شہید کیا جاچکا ہے تو ان کی لاشیں ہی ہمارے حوالے کردیں تاکہ ان کی انتظار کے کرب میں مبتلا بے قرار روحوں کو کچھ قرار نصیب ہوسکے۔