کوئٹہ: میڈیکل طلبہ نے احتجاجاً پریس کلب کے سامنے کلاسوں کا آغاز کردیا

181

ایک سازش کے تحت کالجوں کے پراجیکٹس، بجٹ، ترقیاتی کام اور کلاسز کو روکا گیا ہے، حکومت کی مسلسل کوشس رہی ہے کہ تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا جائے – ثنا بلوچ

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے بلوچستان کے تین میڈیکل کالجوں میں حتمی فہرست جاری نہ کرنے اور کلاسوں کا آغاز نہ کرنے کے خلاف بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے احتجاجاً روڈ پر کلاسوں کا آغاز کردیا۔

وائس چئیرپرسن ڈاکٹر سبیحا بلوچ نے کلاسوں کا انعقاد کیا اور خود طلبہ کو ان کے کورس کے متعلق لیکچر دیئے۔ تینو میڈیکل کالجوں میں منتخب ہونے والے طلبہ کی کثیر تعداد کلاس لینے پہنچ گئے جبکہ ایم پی اے ثنا بلوچ نے بھی طلبہ سے اظہار یکجہتی کی۔

اس موقعے پر بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی وائس چئیرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے تنظیم کی جانب سے طالب علموں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ہر قدم پر طالب علموں کی رہنمائی کے فرائض سر انجام دیں گی اور بحیثیت ایک طالب علم تنظیم علم کی شمعیں روشن کرنے کی جدوجہد جاری رہیں گی۔

تنظیم نے طالب علموں کے ساتھ انتظامیہ کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کے خلاف احتجاجا کیمپ میں میڈیکل کلاسوں کے انعقاد کا فیصلہ کیا جس کی روشنی میں آج باقاعدہ پہلے کلاس کا افتتاح ہوا۔

وائس چئیرپرسن نے مزید کہا ہم نے اس سے پہلے بھی ایک احتجاج کیا تھا جس میں اعلیٰ حکام سے اپیل کی گئی تھی کہ مکران،جھالاوان اور لورالائی میڈیکل کالجوں کے داخلہ لسٹ کو آویزاں کرکے جلد از جلد کلاسوں کا انعقاد کیا جائے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کلاسوں کے انعقاد کرنے سے مکمل قاصر نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے طالب علم آج مجبور ہو کر سڑکوں پر اپنے کلاس لے رہے ہیں۔

میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ میڈیا آج مکمل سنسر شپ کے زد میں ہے لیکن دیگر صوبوں میں مختلف مسائل کی گھن گرج میڈیا میں صاف سنائی دے رہی ہیں لیکن جب بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کرنے اور اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے بلوچستان کے طالب علم جدوجہد کرتے ہیں تو وہی میڈیا سکوت کے عالم میں نظر آتا ہے جو جانبداری کے زمرے میں آتا ہے۔

ثنا بلوچ نے طلبہ سے اظہار یکجہتی کی اور لیچکر بھی سنیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے اپنے بیان کے اختتام پر اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ طالب علموں کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اگر اعلیٰ حکام طالب علموں کے دکھ اور درد کو نظر انداز کریں گے تو ہم مستقبل میں احتجاج کے دائرہ کار کو مزید وسعت دیں گے اور جب تک ان کے حقوق نہیں ملیں گے طلبہ حقوق کی جدوجہد جاری رہیں گی۔

احتجاجی کیمپ میں موجود بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ایم پی اے ثنا بلوچ نے نا صرف لیکچر سنیں بلکہ طلبہ اور بی ایس اے سی کے نمائندگان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی مسلسل کوشس رہی ہے کہ تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا جائے۔

انہوں نے حکومت کی ناکام پالیسیوں اور بے حسی کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مختلف مکتبہ فکر کے لوگ نے اپنے حقوق کے لئے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں جن میں لاپتہ افراد کے لیے کیمپ، بے روزگار نوجوانوں کا کیمپ، اساتذہ کا کیمپ اور ان طلبہ کا کیمپ شامل ہے جو نے سالوں کی محنت کے بعد میڈیکل ٹیسٹ پاس کرکے آج یہاں اس مقام پر پہنچے ہیں۔

انہوں نے ایک سازش کے تحت ان کالجوں کے پراجیکٹس، بجٹ، ترقیاتی کام اور کلاسز کو روکا گیا ہے۔ انہوں نے یقین دھانی کرائی کہ اسمبلی میں جلد از جلد اس مسئلے کو اٹھائینگے اور کچھ ہی دنوں میں پیش رفت کی امید رکھتے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکٹری سلمان بلوچ، حاجی حیدر بلوچ نے اس حوالے بات کرتے ہوئے کہا کہ تینوں میڈیکل کالجوں کے داخلوں کا اعلان ہوا، فارم جمع ہوئے فروری میں ٹیسٹ بھی ہوا لیکن مئی میں جو لیسٹ لگا وہ صرف بولان میڈیکل کالج کوئٹہ کا لگا اور باقی تین میڈیکل کالجوں کے فہرست اس بنیاد پر روکھے گئے کہ یہ پی ایم ڈی سی سے رجیسٹر نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا طلبہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان سے سوال کر سکیں کہ ان کے ساتھ ااسا مذاق کیوں کیا گیا جس کی وجہ سے ان کا سال ذائع ہوا بلکہ ان کا مستقبل بھی دھاو پر لگا ہوا ہے۔ اگر یہ کالج رجیسٹر ہی نہیں تو کس بنا پر ان کے داخلوں کا اعلان ہوا اور فارم جمع ہوئے اور اینٹری ٹیسٹ کا ڈرامہ رچایا گیا۔