مسلح جہد پر امریکی پابندی، تحریک آزادی کا اقرار – نادر بلوچ

242

مسلح جہد پر امریکی پابندی، تحریک آزادی کا اقرار

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

امریکہ کا بلوچستان میں جاری متشدد واقعات کا صرف بلوچ قومی تنظیموں کو ذمہ دار ٹہرانا لاپرواہی اور علاقائی مسائل کے حل سے صرفِ نظر ہے۔ بلوچ قوم اور بلوچستان کو ستر برس بیت چکے ہیں، غلامی کے سفر کو طے کرتے کرتے، یہاں اب چوتھی نسل جوان ہوچکی ہے۔ مسئلہ بلوچستان ایک دن، ایک ماہ و سال کا نہیں بلکہ برطانیہ کے تسلط سے چھٹکارے کے بعد آزادی کے سات مہینے دنیا کے نقشے پر نقش رہنے والا بلوچستان اب طویل غلامی کے بعد حالت کرب میں ہے۔ یہاں پر بسنے والے باسی، ظلم و جبر، بے روزگاری، معاشی بدحالی، بے تعلیمی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ چوتھی نسل روزانہ کی بنیاد پر آپریشن، چادر و چاردیواری کی پامالی، قریبی رشتہ داروں کی مسخ شدہ لاشیں، عورتوں اور بچوں کی قابض فوج کے ہاتھوں اغواء، بلوچ وطن پر قبضے کی خواہش لیئے چین جیسے سامراجی طاقتوں کی مکر و فریب دیکھ کر جوان ہوئے ہیں۔

مستقبل روشن و تابناک ہو، یہ ہر انسان کا ایک سچا خواب ہوتا ہے۔ آزادی کی اہمیت سے نہ گورا انکار کرتا ہے نہ کالا بلکہ اسکو اقوام عالم کے مسلمہ اصولوں کا حصہ بنایا گیا ہے، آزادی کو بلا رنگ و نسل ہر انسان کا پیدائشی حق قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی قوم یا فرد کو یہ حق حاصل نہ ہو تو اسکو حاصل کرنے کیلئے جدوجہد عالمی قوانین کا حصہ ہیں۔ سیاسی و مزاحمتی فکر قوموں کو جبری غلامی سے نجات دینے کا ضامن ہیں۔ آج دنیا میں جو بھی آزاد ممالک ہیں، انہوں نے آپنی آزادی کو حاصل کرنے کیلئے مسلح و سیاسی جہد کی ہے۔ مسلح جہد سیاسی جہد سے الگ کوئی شے نہیں بلکہ یہ قابض ریاست کے تشدد کو کاونٹر کرنے کیلئے قومی دفاع کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔

بلوچ قوم اپنی تاریخی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے بلا تعطل مسلسل ستر سالوں سے قابض ریاست کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اس جہد کو کھبی قبائلی شورش کہا گیا تو کھبی تین سرداروں کے مفادات کی جنگ، لیکن اس ریاستی بیانیئے کو بلوچ آزادی پسند قوتیں ہمیشہ رد کرتی گئیں۔ سنہ دو ہزار کے قریب بلوچ قومی تحریک کو بلوغت میں داخل ہونے کا پہلا موقع ملا جہاں باقاعدہ تنظیمی بنیادوں پر جہد کا آغاز کیا گیا۔ کمی بیشیوں، کمزوریوں و نالائقیوں کے باوجود بلوچ قیادت تنظیمی بنیادوں پر جہد کرنے کے فیصلہ میں کامیاب ہوا، جو پورے قریباً بیس سال قبل لگا تھا، آج وہ ایک تن آور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہر شاخ کے سائے تلے بلوچ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے ہزاروں جوان سربکف ہیں۔ یہ ادارے قومی ہیں، انکی لاج قومی ہے، اس لیئے انکے نام و عظمت کے دفاع کیلئے بھی ہزاروں سیاسی آوازیں متحرک ہیں۔

امریکہ رائے بہادر نصف صدی سے زیادہ جنوبی ایشیاء میں اپنے ملکی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے سرگرداں ہے، جس میں کامیابی کیلئے اسے ناکام پالیسی سازوں کے بدولت دس صدیوں میں بھی کامیابی کے امکان نظر نہیں آتے۔ امریکہ دنیاء میں سپر پاور کی حیثیت سے بلا مقابلہ و زحمت راج کرنا چاہتا ہے، ایسے بیہودہ پالیسوں کے بدولت امریکی مفادات ہچکولے کھا رہے ہیں، جسکی واضح مثال کو سمجھنے کیلئے ایشیاء سے لیکر مشرق وسطیٰ تک امریکی مفادات پر مسلسل منڈلاتے خطرات پر تجزیہ کرکے سمجھے جاسکتے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، یمن، کی بربادی سے لیکر قطر اور اب ایران امریکی ناکامیوں کے قصیدہ پڑھنے والوں میں شامل ہورہی ہے۔ یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ امریکی عوام کے ہزاروں کھرب ڈالر دھول میں اڑانے والی امریکی دفاعی بیوروکریسی کی ناکام پالیسوں و تجزیوں کی بنیاد پر امریکی اس دشمن ریاست کی پرورش کررہے ہیں، جو افغانستان میں امریکی فوجیوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ ہندوستان میں پراکسی جنگ میں ملوث ہے۔ پاکستان، جسکی سرزمین پر فوجی چھاونی کے اندر سے دنیاء کے سب سے اہم اور مطلوب شخص برآمد ہوا، ڈاکٹر شکیل آفریدی جس نے مدد کی وہ آج اس ریاست کی جیل میں ہے۔ ایسے ملک پر اعتماد کرنا امریکی عوام سمیت انسانیت کو قصائیوں کے حوالے کرنے جیسا اقدام ہے۔ آج امریکہ جنوبی ایشیاء میں بیس سالوں کی ناکامیوں میں ملوث پاکستان کو فراموش کرچکی ہے۔

بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت کے خلاف ہر سطح پر مختلف تنظیمیں متحرک ہیں، تنظیمیں سیاسی ہوں یا سماجی سب بلوچ قوم کا اثاثہ ہیں۔ ان تنظیموں کی کامیابی کے پیچھے بلوچ قوم کی بھر پور حمایت و مدد شامل ہے۔ یہ تنظیمیں بلوچ قوم کی طویل صبر آزماء جہد اور تپسیاء کا ثمر ہیں، ان سے دستبرداری بلوچ قوم کی زیست و موت کے سوال سے وابستہ ہے، بقاء کی اس جنگ کو امریکی ایماء پر دہشتگردی کی مفادات کے مطابق بدلتی ہوئی تعریفوں پر بلوچ اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ امریکہ سمیت دنیاء کی توجہ بلوچستان کی جانب مبذول کرنے میں کامیابی کا سہرا شہداء وطن و تنظیموں و بلوچ نوجوانوں کی اہم کامیابی ہے۔ آج دنیا کی بڑی سے بڑی لابی پیسے اور تعلقات کا استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں لیکن بلوچ قومی وسائل کی کمی کے باوجود ان قومی مفادات کی تحفظ و آزادی کو حاصل کرنےکیلئے اپنے نوجوانوں کی چوتھی نسل قربان کررہی ہے۔

امریکہ سمیت دنیا کے دیگر اقوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ قوم پر ایک قابض ریاست پاکستان جنگ مسلط کرچکی ہے۔ بلوچ قوم اپنی سرزمین، ساحل و وسائل کے دفاع کا عالمی متعین کردہ قوانین کے مطابق حفاظت کا حق رکھتی ہے۔ اقوام عالم کو چاہیئے کہ بلوچستان کی جبری الحاق کے خلاف بلوچ قوم کی مدد کریں، بجائے انکی مشکلات میں اضافہ کا سبب بنیں۔ جنوبی ایشیاء میں جاری جنگ اور شدت پسند نظریات کے خاتمہ اور روکنے کا ایک ہی حل ہے۔ یہاں بسنے والے اقوام کو انکی فطری و تاریخی جغرافیہ کے مطابق آزاد، سیکولر قومی ریاستیں قاہم کرنے میں مدد دی جائے۔ بلوچستان کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ عالمی برادری یہاں پر جاری بلوچ نسل کشی کا نوٹس لیکر انسانی اقدار کی پامالی کو روکنے میں کردار ادا کریں نہ کہ بلوچ قوم کی نمائندہ تنظیموں پر پابندی عائد کرکے ان سے دفاع کا حق چھینا جائے۔

امریکہ سمیت عالمی قوتیں بلوچ قوم کو گارنٹی دیں کہ بلوچ تحریک آزادی کی حمایت کریں گے تب جاکر بلوچ قوم انکی کاوشوں کو سراہیگی اور امن عالم میں روشن باب کا اضافہ کریگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔