کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

230

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3574 دن مکمل ہوگئے۔ ڈیرہ غازی خان سے سیاسی و سماجی کارکنان نےکیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ اور دیگر کارکنان بھی موجود تھیں۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حق و انصاف، قانون، آئین، برابری، مساوات، تعلیم، صحت، حقوق اور انسانیت جیسے باتوں اور مطالبوں کی پاکستان میں نہ اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی گنجائش موجود ہے۔ آج بلوچ قوم کی نسل کشی جاری ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں، سیاسی کارکنان، دانشوروں، ادیب، شاعری اور سماجی کارکنان کو چُن چُن کر اغوا کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز کے نام پر بلوچوں سمیت دیگر اقوام کے لوگوں کو لاپتہ کرنے کا اقرار ہمارے دیرینہ موقف کی تصدیق ہے کہ پاکستان آرمی اور خفیہ ادارے ہزاروں افراد کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر لاپتہ افراد کسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو انہیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا ہے جبکہ جن افراد کو رہا کیا گیا ہے تو ان کو سالوں سےکس جرم میں لاپتہ رکھا گیا۔پاکستان اسٹبلشمنٹ اقرار کررہی ہے کہ لوگوں لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں جس عالمی دنیا کو نوٹس لینی چاہیئے۔

ماما قدیر نے کہا کہ ریاستی سرپرستی میں ڈیتھ اسکواڈ قائم کرکے بلوچ رہنماوں، کارکنان کا قتل عام کیا گیا، پرامن جمہوری انداز میں آواز اٹھانے والے ہزاروں نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئی اور اجتماعی قبروں میں دفن کی گئی جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے مگر اس کے باوجود بلوچ قوم کے آواز کو دبانے اور فکری عمل کو روکھنے میں ریاست ناکام ہوچکی ہے۔