رفعتوں کا سفر – لطیف بلوچ

450

رفعتوں کا سفر

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

8 اپریل ان عظیم شہداء کے نام منسوب ہے، جنہوں نے غلامی کیخلاف جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کیئے۔ شہید غلام محمد بلوچ، شہید شیر محمد۔ بلوچ اور شہید لالہ منیر بلوچ نے شعوری جدوجہد کی داغ بیل ڈالی اور بلوچ قومی تحریک سے موروثیت، شخصیت پرستی، ڈکٹیٹر شپ اور غیر نظریاتی رحجانات کا خاتمہ کرکے تحریک کو نیشنلزم ازم کی بنیادی اساس، جمہوری سوچ اورنظریاتی بنیادوں پر منظم کرنے کے لیئے ایک مربوط سیاسی پروگرام قوم کو دیا، تحریک و پارٹی میں شخصی اجارہ داری کے بجائے ادارہ سازی پر یقین رکھتے تھے، بلوچ سماج و سیاست پر غلامی کی پڑنے والی منفی اثرات و نقصانات سے قوم کو شعوری آگاہی دینے کا بیڑا اُٹھایا اور بلوچستان کے کونے کونے میں جاکر لوگوں کو قبضہ گیروں کی مذموم سازشوں سے آگاہ کرکے انہیں دشمن کیخلاف کمربستہ کرکے منظم سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور آزادی پسند قوتوں کو یکجاء کرنے کے لئے سیاسی بصیرت، تدبیر اور بردباری سے کام لیتے ہوئے بی این ایف کی پلیٹ فارم پر تمام آزادی پسند قوم پرستوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوئے۔

شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ نے قبائلی نظام سے نفرت کرنے، بلوچ قوم کو زبان ،علاقوں، قبیلوں اور سردار و اینٹی سردار میں تقسیم کرنے کے بجائے تمام بلوچوں کو نیشنلزم کے بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر یکجاء کیا، بی این ایف میں بلوچستان کے تمام آزادی پسند، قوم دوست سردار، نواب، میر و متعبر اور سیاسی کارکن، دانشور، طالب علم شامل تھے اور نہایت ثابت قدمی سے ریاستی سازشوں کا مقابلہ کرتے رہے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ بلوچ قوم کا مسئلہ طبقاتی نہیں بلکہ قومی ہے اور بلوچ غلامی کیخلاف برسرپیکار ہے اور یہ جدوجہد تب کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے، اس تحریک میں بلوچستان کے تمام لوگ حصہ دار بن جائیں کیونکہ بلوچستان کسی ایک طبقے کے زیر نگیں نہیں بلکہ ایک ریاست کی نوآبادیات اور جبر کا شکار ہے۔

شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے ساتھیوں کیساتھ ملکر ریاست کی تمام سازشوں، پروپگنڈوں اور حربوں کو ناکام بنایا، جو بلوچستان کے مسئلے کو طبقاتی مسئلے کا رنگ دے کر پیش کرتے تھے، بلوچستان کے مسئلے کو محرومیوں اور چند نوکریوں تک محدود کرکے دنیا کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ شہید رہنماؤں نے بلوچستان کا اصل مسئلہ دنیا کے سامنے رکھا اور یہ ثابت کیا کہ بلوچوں کے سابقہ تحریکیں اور موجودہ تحریک کسی مراعات و مفادات کے لیئے نہیں، نہ ہی بلوچستان کا مسئلہ چند نوکریوں کا ہے بلکہ بلوچ قوم کا اصل مسئلہ غلامی ہے، بلوچ اور پاکستان کا رشتہ آقا و غلام کا ہے۔

پاکستان 1948 سے بزور طاقت بلوچ قوم کی آزادی اور خودمختیاری کو سلب کرکے بلوچوں کو غلام بناکر رکھا ہوا ہے۔ ہم اس غلامی سے آزادی چاہتے ہیں، ہم اس کا غلام اور نوآبادیات بن کر رہنا نہیں چاہتے۔

قابض ریاست، اُس کے گماشتے و کاسہ لیس شہید غلام محمد بلوچ کو اپنے قبضہ گیرانہ مذموم مقاصد کے سامنے رکاوٹ تصور کرتے تھے، شہادت سے قبل مختلف طریقوں سے اُنھیں خاموش کرنے کی سعی کی گئی لیکن تمام ریاستی حربے ناکام ہوئے، شہید اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے، جیل و زندانوں کی صعوبتیں برداشت کیا۔ دیگر مصائب و مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا رہا لیکن کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ وہ تحریک کے متعلق ہمیشہ پر اُمید تھے۔ اُن کی تحریروں اور تقریروں سے اُنکے تحریک اور بلوچستان و بلوچ قوم سے سچی وابستگی نظریاتی کمٹمنٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے بہت کم شخصیات گذرے ہیں، جنھوں نے اپنے مقاصد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے جان سے گذرے ہیں اور نوجوانوں کی ذہنی، فکری نشوونما کے لیئے اپنے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، نظریاتی و شعوری بنیادوں پر نوجوانوں کی جڑت تحریک سے بنائی اور بلوچ جہد کو نظریاتی و جدید خطوط پر استوار کرنے کا کریڈٹ بھی انہی رہنماوں کو حاصل ہے۔

شہید غلام محمد بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ کو اس سے قبل ایک بار 3 دسمبر 2006 کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا کچھ ماہ لاپتہ ہونے کے بعد 2007 میں سبی سے بازیاب ہوئے اور تربت جیل منتقل کیا گیا، کچھ عرصہ جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوئے اور دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا، بلوچ قوم کو متحرک کرنے کے لئے دن رات ایک کرکے کام کرتے رہے اور اُنکے منظم سیاسی حکمت عملی کے وجہ سے بلوچ نوجوان بڑی تعداد میں تحریک سے وابستہ ہوگئے اور ریاستی ظلم و جبر کے خلاف سیاسی و مزاحمتی محاذ پر سرگرم کردار ادا کرتے رہے اور آج بھی کررہے ہیں، جان سولوکی کی رہائی میں شہید غلام محمد کا کلیدی رول تھا، اُنکے مثبت کردار کی اقوام متحدہ نے بھی تعریف کیا تھا۔ ریاست اور ریاستی کاسہ لیس شہید غلام محمد بلوچ کی عملی کردار سے خائف تھے شہید کو راستے سے ہٹانے کے لئے اُنہوں نے سازشوں کا آغاز کیا، شہید غلام محمد بلوچ، شہید لالہ منیر بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ پر مختلف جھوٹے مقدمات بنائے گئے تھے، وہ اپنے مقدمات کے سلسلے میں تربت میں موجود تھے۔ تین اپریل کو کورٹ میں پیشی کے بعد اپنے وکیل اور ممتاز قوم پرست رہنما کچکول علی ایڈووکیٹ کے چیمبر میں موجود تھے، جہاں سے نقاب پوش ایجنسیوں اور فورسز کے اہلکار اُنہیں اُٹھا کر لئے گئے۔ ایک ہفتہ ٹارچر سیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناکر ان تینوں بلوچ رہنماؤں کو شہید کرکے اُنکی مسخ شدہ لاشیں 8 اپریل کو مرگاپ کے مقام پر پھینک دی گئیں۔

“جب میں دوسروں کو انکی شہادت پر سرخ سلام پیش کرتا ہوں، تو پھر یہ شہادت اپنے لیئے کیوں قبول نہیں کرتا ہوں” شہید غلام محمد بلوچ نے شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کرکے اپنے اس قول پر عمل کرکے دکھایا۔

رفعتوں کی اس سفر میں شہید غلام محمد بلوچ، شہید لالہ منیر بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ نے شہادت کی بعد بھی رفعتیں پائیں۔

وقت و حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم شہداء کو روایتی خراج عقیدت پیش کرنے کے بجائے ان کی نقش قدم پر چلتے ہوئے انکی فکر کو اپنائیں، نظریات کی پیروی کریں قوم کو مزید تقسیم در تقسیم اور ٹکڑوں میں بانٹنے کے بجائے بلوچ نیشنل ازم کی بنیاد پر یکجا کرکے اپنی کھوئی ہوئی شناخت اور آزادی کو حاصل کرنے کے لئے منظم انداز سے جدوجہد کریں، اپنے ذات، گروہی مفادات و خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر بلوچ قومی مفادات اور ترجیحات کو اولیت و اہمیت دے کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔