بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ – نادر بلوچ

2121

بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شادی بیاہ، تقریباً دنیا بھر کے سماجوں میں خوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے، دلہا، دلن کی خوشی انسانی فطرت کے عین مطابق ہوتی ہے۔ خود دلہے راجا سے بھی شادی خانہ آبادی کے کارڈ پر لکھے اپنا نام دیکھ کر اپنی خوشی پر پھولے سمائے نہیں جاتے۔ دلہن کے ملے جلے جذبات، دکھ اور خوشی سے آنکھوں سے چھلکتے آنسوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ فیمین ازم کی پرچار میں شادی بیاہ کے بے پایاں مضمرات بیان کی جاتی ہے۔ مگر شادی کا رنگ اب بھی سرخ ہے، جو خوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مثال عام ہے۔ جو آج یہاں موضوع بحث بھی ہے۔ عبداللہ دلہے کا نام نہیں بلکہ وہ باراتی ہے، جو دلہاء اور دلہن انکے خاندان سمیت رشتہ داروں سے بھی زیادہ خوشی کا اظہا کرتا ہے۔ اس محاورے میں کسی اور کے خوشی پر بے جا خوشی منانا بھی قابل اعتراض ٹہرتا ہے۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی کے غم پر خوشی منانا کتنا خطرناک عمل اور رویہ ہوسکتا ہے؟

بیگانے کی شادی میں دیوانگی جیسی کیفیت، سماج کے ہر حصے پر جانچ رکھنے والوں کو نظر آجاتی ہے، اس کیفیت کو پرکھنے کیلئے وطن اور وطن سے جڑے جزبات و نظریات کو مد نظر رکھ کر تبادلہ خیال کرنا مقصود ہے، اس لیئے بلوچ وطن سے جڑی صورتحال پر مباحثہ کا من ہے۔ ٹیبو سلطان کا انگریز سامراج سے زور آزمائی کے طفیل بہادروں کی مختصر زندگی کو شیر کی زندگی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ وطن کے غدار جعفر و صادق کا کردار آج بھی لعنت و ملامتی جھیل رہے ہیں۔ اقوام کے درمیان مدبھیڑ، ظالم و مظلوم کے درمیان معرکہ آرائی ، تلوار سے گردن زنی، لیبیاء کے عمر مختیار سے لیکر بلوچستان کے حمید بلوچ تک سب کا وطن کے لیئے خوشی سے تختہ دار کو قبول کرنا، وطن کے ان فرزندوں کی کہانیاں ہیں، جو تاریخ میں امر ہوۓ۔ انکو ہم عبداللہ دیوانہ اس لیئے نہیں کہتے کیوں کہ انہوں نے اپنے وطن کی خاطر موت کو قبول کیا، اور ایک اعلیٰ مقصد آزادی کیلئے جان قربان کرنے کا فلسفہ پیش کیا۔

قابض اور محکوم کی جنگ میں جس طرح فتح ہمیشہ محکوم کا مقدر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح وطن کیلئے میدان عمل میں متحرک کردار ادا کرنا بھی ہر شخص کا حق بھی ہے اور ہر ذی شعور پر فرض بھی ہے، نہ کہ بیگانے ریاست کی فوجی اتاشی بن کر اپنے ہی مظلوم قوم پر ظلم و جبر کرنا، انسانی حقوق کی پامالی کرنا، قومی مفادات کو نقصان پہنچانا، غداران وطن کے زمرے میں شمار کی جاتی ہے۔ شادی کی طرح خوش نصیبی، وطن پرستی، کا سہراء ان سیاستدانوں، دانشوروں، صحافی، ادیب، شعراء، گلوکار، طلباء و اساتذہ، ڈاکٹر و انجینیر، بزگر و شوان، کسان و زمیندار، سردار و نواب، عاقل و دانشور، سرمچار و جانثار، مرد اور عورت، الغرض قوم کا ہر وہ حصہ جو شعوری طور پر قوم اور وطن کیلئے جذبہ حب الوطنی سے بھرپور کردار ادا کررہے ہوتے ہیں، وہی داد و خراج تحسین کے لائق و مستحق ہوتے ہیں۔ وہی تاریخ ہوتے ہیں اور وہی تاریخ بناتے ہیں۔

بلوچستان، آگ اور خون کی ہولیوں کی آمجگاہ بنی رہی ہے، جہاں قوم پرست اور قوم دوست قوتیں متواتر نسل در نسل وطن پر جان نچھاور کرکے قبضہ گیر ریاست کی قائم کی ہوئی غلامی کی دیواروں میں دراڑیں ڈال رہی ہیں، ماں اور باپ اپنے نوجوان فرزندوں کو کفن پہنا کر رخصت کررہے ہیں، بلوچ قیادت اس دو ریاستی اور دو اقوام کے درمیان تصادم کو فیصلہ کن بنانے کا تہیہ کرچکے ہیں، بلوچ منزل کی جانب محو سفر ہیں، تو دوسری جانب جعفر و صادق کا کردار ادا کرنے والے غدار ابن غدار بن کر اپنی نسلوں کیلئے شرمندگی کا سامان پیدا کررہی ہیں۔ ایسے کرداروں کیلئے تاریخ میں سیاہ پنوں پر سیاہ کارناموں و بدنامی کے علاوہ کوئی جگہ نہیں۔ جسطرح سرمایہ دار اپنے سرمایہ کو منافع بخش بنانے کیلئے موزوں جگہ کا انتخاب کرکے سرمایہ کاری کرتے ہیں بالکل اسی طرح قوم دوست، وطن دوست قومپرست اپنی سرزمین اور قوم کیلئے جہد کرکے اپنی نسلوں کی خوشحالی کے لیے زندگی وقف کرکے تاریخ کے روشن ابواب کا حصہ بنتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مداری کا کھیل پیش کرنے والے غداروں کا کردار اس بندر کی طرح ہوتا ہے، جسکا نام نہ تو کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے، انکا کردار بھی کھیل ختم پیسہ ہضم جیسا ہو جاتا ہے۔ ریاست انکو استعمال کرکے انکے لیئے اور انکے خاندان کیلئے بے بسی و شرمندگی کا سامان پیدا کرتی ہے، یہ قلم بیچتے ہیں، لہو اور ضمیر کے سودا گر ہوتے ہیں، ننگ و ناموس اور وطن کو بیچتے ہیں۔ افسوس ، حیف اور لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے، ہر اس شخص کیلئے جو سرکاری ہمنوائی میں دیوانہ بنے ہوۓ ہیں۔

وقت آج بھی زندہ ہے، مادر وطن آج بھی دشمن کے قید میں ہے، آئیں عقل و شعور کی آواز سن کر ان سرکاری و قبضہ گیر کی راہوں سے علیحدگی اختیار کریں، بیگانوں کی شادیوں سے کنارہ کش ہوکر وطن کے باضمیر کرداروں کا ہمنواء بنیں، قلم سے لیکر تحریر تک، زبان کی دھار سے لیکر آواز کی گونج تک، سب کو لمہ وطن کے نام کر دیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔