کوئٹہ: لاپتہ افراد کیلئے احتجاج پر بیٹھے خواتین و بچے بیماریوں میں مبتلا

175

احتجاج پر بیٹھے خواتین و بچے نزلہ، زکام سمیت بخار کا شکار ہورہے ہیں،

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے خواتین اور بچے سردی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

ٹی بی پی کے نمائندے نے اس حوالے سے بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنازیشن کے وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ سردی میں احتجاج پر بیٹھے خواتین اور بچے نزلہ، زکام سمیت بخار میں مبتلا ہورہے ہیں لیکن لواحقین اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ کے بیٹے میراث، نصیر بلوچ کے بیٹے سنجر سمیت دیگر بچے بیماریوں میں مبتلا ہے جنہیں ڈاکٹروں کے پاس بھی لے جایا گیا ہے اس کے علاوہ دیگر خواتین بھی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

یاد رہے اس سے قبل وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بھی سردی میں مسلسل احتجاج پر بیٹھنے کے باعث بیمار ہوگئے تھے جس کے باعث وہ کچھ دنوں کیلئے احتجاج میں شامل نہیں ہوپائے تھے۔

دوسری جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی کیمپ کو آج 3477 دن مکمل ہوگئے جبکہ بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ، وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ، انسانی حقوق کے کارکن قمر النساء، حمیدہ نور، پی ٹی ایم کے کارکنان اور دیگر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں بغیر کسی گناہ کے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور جیل و زندانوں میں ڈال کا اذیتیں دی جاتی ہے لیکن جو قتل اور ظلم کرتے ہیں نہ جیل جاتے ہیں اور نہ ہی انہیں سزا ملتی ہے، ان کو یہ حق کسی نہیں بلکہ ہماری خاموشی نے دیا ہے۔ ہماری دولت سے بندوق اور توپیں خرید کر ہمیں مار کر ہماری زمین سے بے دخل کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا بلوچستان میں پاکستان تشدد کے ذریعے ہمارے پر امن احتجاج کو ختم کرنے کے لئے غیر انسانی حرکات پر عمل پیرا ہے، تشدد کرو مارو پھینکو کی پالیسی کے تحت سال 2000 سے اب تک دس ہزار سے زائد بلوچ سیاسی ورکروں ،طلباء، دانشوروں، وکلا، صحافی، ڈاکٹر اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملی، اجتماعی قبروں میں لوگوں کو دفنایا جارہا ہے جبکہ بلوچ خواتین بھی ریاستی زندانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں اور بعض ریاستی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں بچے بھی ریاستی درندگی سے بچ نہیں پائے ہیں.