شہید جنرل اسلم بلوچ اور ساتھیوں کے نام ۔ سنگت بابل بلوچ

702

اس دنیا میں جب سے آدم زاد وجود میں آیا ہے۔ وہ اپنے ساتھ اپنی بہت ساری خواہشات بھی لے کر آیا ہے اور وہ مسلسل اپنی خواہشات کی تکمیل کےلیئے تگ و دو میں لگا رہا چلا آیا ہے۔ آدم زاد کی اپنی خواہشات میں سے ایک ہے دوسروں پر حکمرانی اور دوسروں کو اپنا غلام بنا کر ان کی ملکیت کو اپنے قبضے میں لینا، اور اپنے ان ناپاک مقاصد کےلیئے وہ ظالم بن کر مظلوم پر ٹوٹ پڑتا ہے تاکہ اپنے مقاصد کو حاصل کیا جائے اس طرح ظالم ہر حد کو پار کرتا ہوا ظلم کی انتہاء تک چلا جاتا ہے۔

اس طرح آدم زاد اپنے حواس کھو جاتا ہے اور درندہ صفت بن جاتا ہے۔ انہی درندہ صفت قوموں میں سے ایک پاکستان ہے۔ یہ مملکت انگریز داد وجود میں آتے ہی بلوچ پر ٹوٹ پڑا اور ظلم کی انتہاء کرتا چلا جارہا ہے۔ اس نے جب سے بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا ہے۔ اس دن سے وہ اسی جدوجہد میں لگا ہےکہ کسی طرح بلوچ کو نیست و نابود کرکے صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ اس طرح وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون معصوم ہے، کون بزرگ ہے، کون عورت یا مرد ہے۔ لیکن بلوچ نے پہلے دن سے اپنے دفاع میں دشمن کو پیٹھ نہیں دکھایا، ہمیشہ دشمن کے سامنے سینہ سٌپر ہوکر لڑتا چلا آرہا ہے۔ انہی سرفروش جہد کاروں میں سے ایک استاد اسلم شہید تھے۔

استاد نے اپنے بچپن سے خود کو اپنے وطن کی دفاع کے خاطر صرف کیا ہوا تھا اور میدانِ جنگ میں آگے بڑھتا چلا گیا، جہاں دشمن سے سامنا پڑتا، استاد ایسی حکمت عملی سے آگے بڑھتا کہ دشمن پریشان ہوجاتا۔ استاد نے دشمن کو چیلنج کیا تھا کہ تم جس طرح لڑنا چاہوگے ہم اس طرح لڑیں گے۔ لیکن پھر بھی جب دشمن معصوم بچوں کو مارتا تو استاد کے اندر انسانیت کی لہر جاگ اٹھتی کہ میں دشمن کے معصوم بچوں کو نہیں مارسکتا۔ جب دشمن خواتین کو مارتا یا لاپتہ کرتا تو استاد کے اندر بلوچیت استاد کو اجازت نہیں دیتا کہ خواتین پرہاتھ اٹھائے۔ استاد نے دشمن کو اتنا مجبور کیا ہوا تھا کہ وہ کس طرح اسے روکے دشمن جو پروپیگنڈہ کرتا استاد اسے ناکام بنادیتا، دشمن نے کوشش کی آپسی اختلافات کو بڑھاوا دیکر انہیں توڑ دیں لیکن استاد نے اپنے دوستوں سے مل کر دشمن کی اس چال کو ناکام تو کیا ہی بلکہ اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کرکے ایک قدم اور آگے بڑھے، یہاں استاد کے اس عمل سے دشمن کو مٌنہ کی کھانی پڑی۔ دشمن نے فیملی کو گرفتار کرکے اسے پیچھے ہٹنے پرمجبور کرنے کی کوشش کی تو استاد نے فیملی کو میدان میں اتار کر دشمن کو للکارا، دشمن جس چیز سے استاد کو ڈرانا چاہتا تھا استاد اسے خود قربان کرکے دشمن کے چال کو ناکام کردیتا۔ اس کی ایک مثال ہے استاد کی جواں سال فرزند ارجمند کا فدائی حملہ، استاد نے دشمن کو بتا دیا کہ تم جس چیز سے ہمیں ڈرانا چاہتے ہو، ہم اسے خود اپنے وطن کی دفاع میں ایثار کردیں گے۔ اب جاکے کوئی اور پروپیگنڈہ تلاش کر بلوچ کو زیر کرنے کی، یہ مجاہدینِ وطن ہیں۔ جہاد ان کا فریضہ ہے۔ اور شہادت ان کا منزل ہے۔ دشمن جس چیز کو جس خبر کو چپھانا چاہتا تھا، ساری میڈیا پر پابندی لگا دی گئی کہ بلوچ کے کسی خبر کو میڈیا میں جگہ نہ دی جائے لیکن استاد ایسا عمل کرتا کہ دشمن جس خبر کو چھپانا چاہتا تھا۔ اسے بجائے چھپانے کے خود چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتادیتا کہ انہوں نے یہ کام کیا۔

جہاں دشمن نے استاد کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے عوام کو استاد سے بد زن کرنے کی کوشش کی، وہاں استاد کے فرزند نے اپنے عمل سے دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام تو کیا ہی ساتھ میں عوام کو حوصلہ بھی دے دیا کہ تحریک اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ دشمن نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ تحریک دم توڑ چکی ہے، وہاں دشمن کےسب سے بڑے شہر میں ایک مقام پر اس طرح کا حملہ کرکے استاد نے دشمن کے دنیا کو جھوٹے دلاسوں کی راز افشاں کردی کیونکہ اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھا کر تو وہ چھپا دیتا ہے لیکن یہاں باہر والوں کو کیسے چھپائے، یہ استاد ہی تھے جنہیں سمجھنا دشمن کےلیئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔

آج استاد کی شہادت پر جہاں دشمن کو خوش ہونا چاہیئے، وہاں دشمن کو اتنا پریشان کیا ہوا ہےکہ استاد کی ساتھیوں سمیت شہادت کو وہ دشمن کیسے قبول کریں کہ ہاں ہم نے اپنے بڑے دشمن کو مار دیا ہے۔ بلکہ دشمن پچھتاوے کا شکار ہے کہ استاد کے خلاف دشمن جو پروپیگنڈے کررہا تھا، وہ سارے جھوٹ پر مبنی ہیں، جو استاد کی شہادت سے دم توڑ گئے۔

استاد موجود تھا تو بھی دشمن کےلیے خطرہ تھا، آج استاد کی غیر موجودگی بھی دشمن کےلیے خطرناک ہے۔ کیونکہ استاد تو دشمن کے سامنے عیاں تھا۔ لیکن ان تیس سالوں میں استاد کے ساتھی جو استاد نے تیار کیئے ہوئے ہیں، جو استاد کی موجودگی میں تو خاموش تھے لیکن اب وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے وہ کون ہیں، کتنے ہیں۔ کہاں سے ہیں اور آگے کیا کرنا چاہتے ہیں یہ دشمن کےلیے جاننا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ آج استاد کی جہاں ساتھیوں سمیت شہادت سے بلوچ قوم غمگین ضرور ہے لیکن اس بات کو بھی نذرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ استاد نے خود کو منزل تک پہنچا دیا کیونکہ ہر مجاہد کا آخری منزل جام شہادت نوش کرنا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہےکہ جب میری موت آن پہنچے تو میں شہید ہوجاؤں۔

استاد شہید کی ساتھیوں سمیت خلاء کو پٌر کوئی نہیں کرسکتا، ان کی کمی ہمیشہ موجود رہے گی لیکن بلوچ تحریک آزادی کی راہ میں لڑنے والے مجاہدین میں اس مقام کے متلاشی افراد کی کوئی کمی نہیں کہ وہ لڑتے ہوئے خود کو اپنے وطن و وقوم کی خاطر ایثار کریں اور مقام شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوجائیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔