استاد کا امر کردار اور مسلسل مزاحمتی فکر – شہیک بلوچ

444

استاد کا امر کردار اور مسلسل مزاحمتی فکر

شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی خوبصورت ہے اور وہ کردار جو زندگی کو نکھارنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تاکہ نسل انسانی بہتر سے بہترین تک پہنچ سکے وہ کردار یقیناً عظیم ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ جہد مسلسل کی تاریخ ہے۔

اسپارٹیکس کو اس لیے یاد رکھا جاتا ہے کیونکہ اس نے دیگر غلاموں کے برعکس ایک گلیڈیٹر کے طور پر زندگی کو گذارنے کی بجائے ایک آزاد انسان کے طور پر زندگی کو جینے کا خواب دیکھا۔ وہ ایک موت کا کرتب باز بننے کی بجائے ایک ایسا انسان بن کر ابھرا جس نے انسانیت کا ایک اہم سبق پڑھایا۔ جب سپارٹیکس کو ماریا گیا تب کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی خوشی کی بات کوئی نہیں کہ ایک آزاد انسان کے طور پر اس دنیا کو الوداع کہا۔۔۔

لیونائڈس نے زرکسیز کو نہایت قلیل تعداد کے باوجود چیلنج کیااور امر ہوگیا۔ چے گویرا نے لاطینی امریکہ میں جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی اور آج جہاں بھی کوئی جدوجہد ہوتی ہے چے گویرا کی تصویر اس جدوجہد میں ظلم کے خلاف بغاوت علم کا درجہ رکھتی ہے۔

زندگی ان ہی کی ہے جو جدوجہد کرتے ہیں اور جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ہم اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ہم ایک جدوجہد کا حصہ ہیں اور بے شمار جہدکاروں کا ورثہ ہمارے حصے میں آیا ہے۔

انسانی تاریخ کے ایک سفاک ترین نوآبادکار کے خلاف بلوچ قومی جدوجہد ایک روشن مثال ہے، اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بلوچ جدوجہد اس خطے میں امید کی ایک کرن ہے۔ جب بھی جدوجہد ہوگی اس میں بلوچ جہدکاروں کے کردار کی روشنی کو کسی صورت نظر اندازنہیں کیا جاسکے گا۔

آج جب جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوکر نوآبادکار کے لیے سردرد بن گئی، کاؤنٹر انسرجنسی کے پالیسیوں پر عمل پیرا ہوکر بلوچ تحریک کو جب شدید نفسیاتی بحران میں دھکیلا گیا، ایسے میں استاد اسلم بلوچ نے جمود کو توڑنے اور نفسیاتی بحران سے نکالنے کے لیے اپنا کرشماتی کردار ادا کیا۔ انہوں نے قربانی کی وہ مثال قائم کی جس کا کوئی ثانی نہیں۔۔۔ ابتداء اپنے ہی اولاد سے کی کہ اس انتہا تک بلوچ کو پہنچ کر نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا ملیگا۔ شہید ریحان کے بعد منظر نامہ بدل ہی گیا، اب تحریک سے وابستہ جہدکاروں میں ایک نیا عزم تازہ ہوا اور فضا مزید پرامید و پرآشوب ہوگئی، پھر اس کے بعد چینی کونسل خانے پر بلوچ فدائین کے حملے نے بلوچ جہدکاروں کو ایک مرتبہ پھر نفسیاتی طور پر حاوی کردیا لیکن یہ سب کچھ دشمن کے زہریلے آنکھوں میں شدید کھٹکا اور اس نے استاد کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں راہ سے ہٹانے کے لیے اپنی پراکسیز کا استعمال کیا۔

یہاں جہدکار دوستوں کی جانب سے بھی استاد کی حفاظت کے حوالے سے ناقص اقدامات پر تنقید کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے گرانقدر جہدکار بیش قیمت قومی اثاثہ ہوتے ہیں، جن کی حفاظت گوریلا حکمت عملی کے تحت لازم طور پر کرنی چاہیئے اور کمانڈر رازق کے بعد تو خاص کر اس حوالے سے محتاط رہنا چاہیئے تھا۔

بلاشبہ استاد کی قربانی عظیم تر ہے لیکن یہ نقصان بھی بہت بڑا ہے کیونکہ محکوم قوموں کے لیے ایسے رہنماؤں کا خلاء آسانی سے پر نہیں ہوتا۔ استاد کے بعد ان کے جدوجہد کو اداروں کی بنیاد پر استوار کرتے ہوئے ہی منزل مقصود تک پہنچایا جاسکتا ہے، اتحاد و یکجہتی ہی استاد کے اصل نقش قدم ہیں۔

اب دیگر بلوچ جہدکاروں کو اپنی حفاظت یقینی بناتے ہوئے گوریلا حکمت عملی کے تحت ریاست کی چالبازیوں سے بچنا ہوگا۔ جغرافیائی طور پر ایسے علاقوں میں قیام جہاں دشمن بہ آسانی نشانہ نہ بنا سکے اور کسی بھی موقع پر سیکیورٹی سے غافل نہ ہوں۔ اب ریاست آنے والے دنوں میں مزید اس طرح کے بہیمانہ حرکتوں میں شدت لائیگی جس کے جواب میں بلوچ جہدکار اس کے اثاثوں شفیق مینگل جیسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی حکمت عملی ترتیب دیں۔

استاد تو امر ہوگئے، ان کا کردار ہماری رہنمائی کرتا رہیگا۔ استاد کی شہادت پر مایوس ہونے کی بجائے ان کے جہد مسلسل کے فکر کو اپناتے ہوئے ہی ہم ان کے منزل مقصود کو پاسکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور سنجیدگی سے عمل کرتے ہوئے دشمن کے جنگی چالبازیوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔