کوئٹہ: جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لگائے گئے کیمپ کو 3137 دن مکمل

160
File Photo

ہر روز نکلتا سورج پوری بلوچ قوم کے لیے تباہی لے کر طلوع ہوتا ہے: ماما قدیر بلوچ

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز تنظیم کیجانب سے جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی بازیابی کیلئے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3137 دن آج مکمل ہوگئے۔پنجگور سے ایک وفد نے لاپتہ افرادو شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دشمن اپنی افواج ،خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ قوم کی منظم نسل کشی کررہی ہے جو عالمی ضمیر کے لیے چیلنج بنتا جارہا ہے۔ بدبخت بلوچ قوم اپنی زمین پر غلام ہے اور ایسے وقت میں ایک ایسی تباہ کن آپریشنوں کا شکار بن گیا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی گاؤں کے گاؤں فوجی بربریت سے تباہ ہورئے ہیں۔ ہر روز کا نکلتا سورج پوری بلوچ قوم کے لیے تباہی لے کر طلوع ہوتا ہے، آئے روز بلوچ فرزندوں کو اغواء اور شہید کیا جارہا ہے ۔ بلوچ قوم کے بھی اپنے راجی وت واکی کے خواہش کی دوٹوک و واضع موقف و الفاظ نے پاکستانی سیاستدانوں اور نام نہاد بلوچ قوم پرستوں سمیت پاکستانی فورسز کا دفلی بجاکر رکھ دی۔ حکومت اور خفیہ اداروں نے بلوچ قوم کو سبق سکھا نے کے لیے اپنے تمام قبضہ گیری حربے استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ قابض قوتیں محکوم و غلام قوم کو اپنے زیر قبضہ رکھنے کے لیے سب سے پہلے انہیں ذہنی طور پر غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے لیئے وہ متزکرہ نفسیاتی، نظریاتی اور تعلیمی مفادات و ثقافتی ذرائع استعمال کرنے کے علاوہ مالی مفادات، مراعات سے نواز نے کے حربے بروئے کار لاتی ہیں مگر جب کسی محکوم و غلام سماج میں احساس غلامی اور اس نجات کا انقلابی شعور وسعت اختیار کر جائے تو وہاں تمام حربے ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر ریاست کی طرف سے اگلا مرحلہ طاقت کا بے رحمانہ استعمال کا ہوتا ہے کہ جسے بے دریخ طور پر آزمایا جاتا ہے لہٰذا اس حوالے سے یہ امرخوش آئند ہے کہ بلوچ قوم اب ذہنی غلامی سے نکل چکی ہے اور اب ماسوائے طاقت کا بے رحمانہ استعمال کے علاوہ ریاست کی ہر کی جانے والی عمل بیرونی، ااستعماری حکمرانی کے کسی دوسرے عنصر یا حتمی منزل کے حصول میں بڑی رکاوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن قابض قوتیں بھی ذہنی تبدیلی کو بھانپ چکی ہیں اس لیے وہ بلوچ قوم کی نسل کشی کو اپنی بقاء اور بالادستی کا آخر ی چارہ کار خیال کررہی ہیں۔ جس کا مظاہرہ بلوچ گدانوں، دیہاتوں اور شہروں میں آئے روز فوجی کاروائیوں اور اس میں عام بلوچوں خواتین بچوں اور بوڑھوں سمیت ہر عمر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے ۔