شہدائے بلوچستان – لطیف بلوچ

1225

شہدائے بلوچستان

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نوآبادیاتی نظام اور غلامی کے خلاف بلوچ قوم نے ہمیشہ سیاسی و مسلح مزاحمت کی ہے، جبری الحاق اور قبضہ گیریت کو بلوچوں نے شروع دن سے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے غلامی اور جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں، آغا عبدالکریم خان کا بغاوت ہو، نواب نوروز خان اور اُس کے ساتھیوں کی مسلح مزاحمت ہو، شیرو مری سمیت دیگر مسلح تحریکیں ہوں یا 1962/ 73 کی مسلح بغاوتیں ہو یا 2000 سے شروع ہونے والا موجودہ منظم بلوچ مسلح مزاحمت ہو، یہ مسلح بغاوت سابقہ مزاحمتی تحریکوں کا تسلسل ہے، تاریخ اس بات کا گواہ ہیکہ ریاستی ظلم، جبر و تشدد، وحشت، بربریت، پھانسیوں، مسخ شدہ لاشیں اور نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں نے بلوچ قوم کے عزم و حوصلوں کو پست نہیں کرسکے ہیں، بلوچ قوم نے ہمیشہ غلامی، جبر، قبضہ گیریت، نوآبادیاتی تسلط، استحصال اور قومی نابرابری کے خلاف سیاسی و مسلح مزاحمت کیا ہے، جب بھی بلوچ سرزمین و قوم پر کوئی کھٹن مرحلہ آیا ہے یا قبضہ گیروں نے جب بھی اپنی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیئے بلوچوں کے خلاف طاقت استعمال کیا ہے، تو جواب میں بلوچ فرزندوں و بزرگوں نے بھر پور انداز سے مادر وطن کا قرض اُتارنے کےلئے پہاڑوں پر چڑھ کر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہیں۔

1958 میں پاکستانی قابض فوج نے قلات پر فوجی جارحیت کا آغاز کرتے ہوئے، خان آف قلات احمد یار خان کو گرفتار کرلیا قلات پر فوج کشی اور خان کے گرفتاری اور غداری کے مقدمات قائم کرنے کے خلاف بلوچ قوم و قبائل نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلح کاروائیوں کا آغاز کیا گیا، اس قومی مزاحمت کی قیادت نواب نوروز خان زہری نے کیا 1959 میں نوروز خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑوں سے اُترا، جنرل ایوب خان نے نوروز خان اور اسکے ساتھیوں و بیٹوں کے ساتھ دھوکہ کیا، قرآن پر معاہدہ طے کرکے پاکستان نے اپنے معاہدے سے انحراف کرکے پیران سال نواب نوروز خان و ساتھیوں و بیٹوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا، بغاوت اور غداری کے مقدمات بنائے گئے، اُنہیں پھانسی کی سزائیں دی گئیں، ضیعف العمری کے وجہ سے نواب نوروز خان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔

15 جولائی 1960 کو نوروز خان کے بیٹے بٹے خان زہری، سبزل خان اور غلام رسول نیچاری کو سکھر جیل اور جمال خان زہری، ولی محمد زرکزئی، مستی خان موسیانی، بہاول خان موسیانی کو حیدر آباد جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ پھر بوڑھے نواب نوروز خان کو بلا کر بیٹے کی لاش پہچاننے کا حکم دیا گیا، اس موقع پر نواب نوروز خان نے تاریخی الفاظ کہے تھے اُنہوں نے لاشوں کی طرف دیکھ کر کہا تھا ”یہ بلوچ خون ہے “ یہ سب میرے ہی بیٹے ہیں“ ایک نوجوان کی لاش کی مونچھ نیچے جھکی ہوئیں تھی، نوروز خان نے آگے بڑھ کر شہید کے مونچھ اوپر کی اور کہا تھا ”بیٹے آزادی کی راہ میں قربان ہونیوالوں کی مونچھ نیچے نہیں ہوتیں“ نواب شہید نے جھکنے کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا، جو بعد میں تحریک آزادی بلوچستان بن گئی، مزاحمت کا یہ تسلسل نہیں رُکا اس تسلسل کو نواب خیر بخش مری لے کر آگئے بڑھے، شہید اکبر خان بگٹی، بالاچ مری، شہید غلام محمد بلوچ سمیت ہزاروں شہداء نے اس راہ میں جانیں قربان کیئے لیکن مزاحمت کے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیا، اب بھی بلوچ فرزندوں نے اس تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، بلوچ نسل در نسل غلامی کے خلاف لڑتے رہینگے مزاحمت، جدوجہد اور قربانیوں کا یہ سلسلہ بلوچستان کی آزادی تک جاری رہیں گے۔

نواب نوروز خان و ساتھیوں سے قرآن پاک پر معاہدہ اور خلاف ورزی اُن قوتوں کے لیئے ایک سبق آموز واقعہ ہے، جو پاکستان کے نام نہاد اختیار داروں، پاکستان کے آئین، جمہوریت اور پارلیمانی نظام پر یقین رکھتے ہے یا پاکستان کے فریم ورک میں سیاست کے خواہش مند ہیں، اُن قوتوں کو یہ جان لینا چاہیئے کہ پاکستان بلوچ قوم اور سرزمین کا ازلی اور ابدی دشمن ہے، وہ بلوچ قوم، بلوچ شناخت، بلوچ تشخص و ثقافت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، بلکہ بلوچ سرزمین پر اپنے جاری جبری و غیر قانونی قبضے اور اپنے استحصالی شکنجے کو مضبوط کرنے کے لیئے بلوچ قوم کی نسل کشی کررہی ہے۔

نواب نوروز خان و اُنکے جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانی اور قابض قوتوں کے سامنے رحم کی بھیک مانگنے سے انکار ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی جانیں قربان کئیں، پھانسی کے پھندے کو قبول کیا لیکن اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور اپنے موقف و مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے، ہمیں آج اُن شہداء کے قربانیوں کو چند مراعات و مفادات کے بھینٹ چڑھانے کے بجائے، اُنکے فلسفہ جدوجہد، حریت، قربانی، بہادری کو اپناتے ہوئے بلوچ سرزمین کی آزادی کے لیئے اپنے زندگیوں کو وقف کرنا چاہئے کیونکہ ہمارے اور ہمارے نسلوں کی مستقبل و زندگیاں بلوچستان کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔