یہ جو نامعلوم ہیں، سب کو معلوم ہیں – ریاض بلوچ

529

یہ جو نامعلوم ہیں، سب کو معلوم ہیں

تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم 

ہزارہ برادری جن کی تعداد چند لاکھ ہی ہوگی اور ان میں سے بیشتر بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ہی آباد ہیں، مذہبی حوالے سے شیعہ مسلمان ہیں. نسلی اور مذہبی حوالے سے اقلیت ہونے کے ناطے پچھلے پندرہ بیس سالوں سے شدید نسل کشی کا شکار ہیں۔

ہزارہ برادری کو افعانستان اور پاکستان میں طالبان اور شدت پسند سنی گروہوں کی جانب سے شدید حملوں کا سامنا رہا ہے. طالبان دور حکومت میں لاکھوں ہزارہ پاکستان اور ایران ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے لیکن پاکستان میں بھی ان پر ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں حملے تھمے نہیں.

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کوئٹہ سے ایک بزرگ عبدالقیوم چنگیزی نے کئی سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں حکومت پاکستان کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ ” ہم جنازے اٹھا اٹھا کے تھک چکے ہیں کیونکہ آپ ہمارے لوگوں کو مرنے سے نہیں بچا سکتے ہو، تو ہمارا سب کچھ دکانیں، گھر بار وغیرہ خرید لیں اور ہمارے لیئے ایک بحری بیڑا خرید لیں اور ہم سب کو اسی میں بِٹھا کر سمندر میں دھکیل دیں، دنیا میں کوئی تو ملک ہوگا جو ہمیں قبول کرے گا”

ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگ تو بیرون ملک سویڈن، جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک میں پناہ لیئے ہوئے ہیں اور زیادہ تر انسانی سمگلروں کو پیسے دے کر مہینوں کی مشقت بھرا سفر طے کرکے آسٹریلیا یا نیوزیلینڈ پہنچ جاتے ہیں یا اکثر رستے میں کسمپرسی کی حالت میں دم توڑ دیتے ہیں.

کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے لوگوں کیلئے جینا محال ہو گیا ہے، خواتین مجبوری میں نقاب پہن کے نکلنے لگے ہیں، تو مردوں نے کالے چشمے لگانا شروع کیا ہے، اپنے ایکتا رنگ و شباہت سے پہچانے جانے کی وجہ سے یہ اقلیتی برادری ہمیشہ آسانی سے زیرِ عتاب رہا ہے اور ہر دوسرے دن ٹارگٹ کلنگ میں مارے جا رہے ہیں.

پاکستان میں انسانی حقوق کی قومی کمیشن کی کچھ مہینے پہلے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں ہزارہ برادری کے 509 افراد ہلاک کیئے جا چکے ہیں. مگر در حقیقت یہ تعداد بہت کم پیش کیا گیا ہے کیونکہ سب سے بڑا المیہ قومی نشریاتی اداروں کی اس نسل کشی کے حوالے بتدریج مکمل بائیکاٹ ہے. پاکستانی میڈیا ہزارہ نسل کشی پر خبر نشر کرتی ہے نا کوئی رپورٹ جاری کرتی ہے.

ہزارہ برادری کا کوئی پرسان حال نہیں، حکومتی اداروں کی پشت پناہی میں جاری اس اقلیتی نسل کشی پر نا کوئی عدالت سوموٹو ایکشن لیتا ہے نا ٹی وی پر بیٹھا کوئی تجزیہ نگار اس پر تبصرہ کرتا ہے. اجتماعی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ برسوں سے جاری اس نسل کشی پر اقوام عالم اور مہذب دنیا بھی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں. کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ کوئٹہ کے علمدار روڈ اور کوہ مردار کے بیچ میں واقع اس بستی میں رہنے والے اس چھوٹی سی قومیت کا قصور کیا ہے؟

ڈیڑھ دو سال پہلے جب میں کوئٹہ میں پڑھائی کے سلسلے میں رہائش پذیر تھا تو کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو حکومتی و انتظامی اداروں میں کوئٹہ کے دوسرے قدیم بلوچ اور پشتون مقامی باشندوں کی نسبت زیادہ پایا، اور روزمرہ زندگی کے حوالے بہت منظم اور متحد دیکھا تو کچھ جلن سا بھی محسوس ہوتا تھا.

ہزارہ ٹارگٹ کلنگ موجودہ بلوچ سیاسی و مزاحمتی ابھار کے بعد ہی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شروع کیا گیا. جس کا بنیادی مقصد فرقہ وارانہ فسادات کے آڑ میں بلوچ قومی آزادی کی خالص قومی تحریک کو مذہبی شکل میں کاؤنٹر کرنا تھا، تاکہ دنیا کے سامنے یہ تاثر پیدا کر سکیں کہ بلوچستان میں ایک نسلی اور فرقہ وارانہ جنگ چل رہی ہے اور رد عمل میں پاکستانی فوج کارروائی کر رہا ہے. سرکاری ایجنسیوں کی بالواسطہ پشت پناہی میں جو انتہا پسند مذہبی طاقتیں ہزارہ کلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں، وہی بلوچستان میں ردِ انقلابی تنظیمیں بھی چلا رہے ہیں، جن میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، جماعت الدعوہ، تحریک نفاذ امن اور بلوچ مسلح دفاع تنظیم شامل ہیں۔

پنجاب ان سب کا مرکز ہے، بلوچستان میں شفیق مینگل، داؤد بادینی، سراج رئیسانی اور رمضان مینگل (جو ایک زمانے میں سریاب روڈ کے تنگ گلیوں میں ایرانی پیٹرول بیچا کرتا تھا) یہ سب ریاستی آلہ کار ہیں اور سرکاری اداروں کے انگلیوں پہ ناچنے والے ہیں، انکے پاس بیشتر جہادی یا فدائی انتہا پسند سنّی ہیں اور مذہبی جنونیت سے لیس ہیں. جنکی تربیت باقاعدہ پاکستانی فوجی چھاؤنیوں میں ہوتا ہے. المہم پاکستانی ریاست نے بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے اور عالمی نگاہوں سے اوجھل رکھنے کیلئے بلوچستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی اور ہزارہ برادری کو اس بیچ قربانی کا بکرا بنایا.

ہزارہ برادری کے متعلق کامریڈ جلیلہ حیدر یا یونا کرمل شاید بلوچستان میں پہلی خاتون ہوںگی جو ہزارہ نسل کشی کیخلاف کل سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے تا دم مرگ بھوک ہڑتال پہ بیٹھ گئی ہیں، انکے مطابق “ہم روز ان نامعلوم (جو سب کو معلوم ہیں) کے ہاتھوں شہید کیئے گئے، اپنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اب وقت ہے کہ ہم لاشیں نہیں آواز اٹھائیں گے.

یہ آواز اور احتجاج صرف ہزارہ کلنگ پہ نہیں بلکہ بلوچ اور پشتون نسل کشی اور ماورائے عدالت گرفتاریوں کے خلاف بھی ہے.

بالآخر پشتون اور ہزارہ برادری کو یہ علم ہو گیا ہے کہ ان قتل و غارت اور ماورائے عدالت گرفتاریوں کے پیچھے فوجی وردی ہے اور جو کل تک انکے بقول نامعلوم تھے، اب سب کو معلوم ہیں، تو اس دلدل یا نسل کشی سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ جب سب کا دشمن ایک ہی ہے، تو کیوں نا ہزارہ برادری کے لوگ پشتون اور بلوچوں کیساتھ یکجہت ہو جائیں۔ کسی قسم کا جمہوری طریقہ احتجاج میں ایک دوسرے کیلئے آواز بنیں. سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کے کمپیئنز میں ساتھ دیں، عالمی سطح پر متحد اور یک آواز ہو کر اپنے دشمن کو آشکار کریں۔