کوئی بھی ایسی شام ہے جس کی سحر نا ہو؟ – ریاض بلوچ

286

کوئی بھی ایسی شام ہے جس کی سحر نا ہو؟

تحریر : ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

رات کے نصف پہر جب میں ظلم کی اس داستان کے چند سطور لکھنے جا رہا ہوں، اس وقت اس ریاستی سی ڈی ٹی پولیس کے ظلم کی شکار خاندان ایک ننھے لاش کے ساتھ تربت کے مین چار راہ شہید فدا احمد چوک پہ پچھلے بارہ گھنٹوں سے سراپا احتجاج ہیں –

ہم ہر صبح جب اٹھتے ہیں تو ظلم کی ایک نئی داستان سے ہمارے دن کا آغاز ہوتا ہے، حسب معمول جب آج صبح اٹھتے ہی موبائل کا ڈیٹا آن کیا تو خون سے لت پت لاش اور زخمی پھول جیسے بچوں کے تصاویر مع ظلم کی ایک داستان کے ساتھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملا
اطلاعات کے مطابق آج علی الصبح یا فجر کی آزان سے پہلے تاریکی میں شال سے آئے سی ڈی ٹی کی سپیشل برانچ کے بندوق بردار، آنسو گیس اور دیگر ہتھیاروں سے لیس پولیس اہلکاروں نے بلیدہ میں بی ایس او کے چیئرمین ظریف بلوچ کے گھر دھاوا بول دیا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے ظریف کے دس سالہ بھتیجے رامز خلیل کو شھید کیا، اسکے چھوٹے بھائی اور بھابھی کو زخمی کرکے اسکے بھائی خلیل احمد کو اٹھا کر لے گئے۔

ہمارے لئے ہر گز یہ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ بلوچستان کے ہر کونے میں. ریاستی پولیس اور فورسز کی جانب سے یہ نا انصافی، ظلم اور بربریت کا سلسلہ چلتا آرہا ہے، دن کا آغاز خون سے لت پت اور گولیوں سے چھلنی ایک بے بس اور غلام بلوچ فرزند کے لاش سے ہوتا ہے، دن بھر انکے لواحقین سراپا احتجاج بن جاتے ہیں پھر رات گئے ہم جیسے کچھ سیاسی اور سماجی کارکن جسٹس فار کے ھیش ٹیگ کے ساتھ انصاف کیلئے چیختے رہتے ہیں اور شام ڈھل جانے کے بعد تھک جاتے ہیں اور اگلی صبح کسی اور ظلم کی بری خبر سننے کا شاید انتظار ہی کرتے ہیں –

کیا یہ جبر و ستم یہ ظلم و بربریت ہمارے قوم کے نصیب میں لکھے ہیں؟ کیا ہم اپنے اپنے باری کا انتظار کریں؟ کیا اس ظلم کو روکنے کیلئے جتھوں میں یا صرف اسی چند علاقے یا سرکل کے کچھ لوگوں کا چیخنا یا چلانا ہی کافی ہے؟

جہاں تک نصیب کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہرگز ایسا نہیں ہی کہ یہ ہمارا نصیب بن چکا ہے اور اس ظلم کو ہم نے قبول کرنا ہے.
کیوں کہ انسان اپنا نصیب اپنے عمل اور کردار سے خود لکھتا ہے، یہ غلامی بھی ہمارے نصیب میں نہیں ہوتا اگر ہمارے بزرگ تاریخ کے سیاسی پیچ و تاب بھانپ لیتے ، آنے والے سیاہ دور کا انہیں ادراک ہوتا، اپنے قوم کے مستقبل کے سیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے یا زور آور دشمن کے خلاف نبرد آزما ہونے کیلئے متحد ہوتے تو ہر گز غلامی کے یہ سیاہ دن ہمیں نہیں دیکھنے پڑتے –

ایک اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارا دشمن ایک ہمارا درد اور درد کو سہنے والا بھی ہم سب ایک قوم کے ہیں لیکن اس کے باوجود جب چوٹ لگتی ہے تو ایک بازو دوسرے بازو کیلئے اس لیے کھڑا نہیں ہوتا کہ یہ بائیں نہیں بلکہ دائیں بازو پہ لگا ہے –

اس موقع پر مجھے واجہ مولانا عبدالحق بلوچ مرحوم کی وہ نصیحت یاد آ جاتی ہے کہ “سب پہلے بس بلوچ بن جاؤ، ایکے اچھے اور مکمل بلوچ بن جاؤ” جس دن آپ ایک اچھے، ایماندار اور مکمل بلوچ بن گئے، آپکو کوئی دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی یا آپ کبھی بہکاؤے میں نہیں آؤ گے، تب شاید ہم آج تک واجہ کی یہ حکمت بھری نصیحت نہیں سمجھ سکے کیوں کہ ہم اب تک ایک مکمل اور سادہ بلوچ ہی نہیں بن پا رہے ہیں۔

ایک بلوچ بننا بھی شاید اتنا آسان کام نہیں ہوگا، جس بلوچ کی ایک زندہ مثال وہ خود تھے. بلوچ ایک ازم ہے، بلوچ کے تاریخی اقدار ہیں، رسم و روایات ہیں، بلوچ ازم میں اپنے بھائی اپنے ہمسائے، اپنے زمین، اپنے زبان اپنے پہچان اور زندگی کے تمام معاملات میں تاریخی اقدار اور فلسفے ہیں، جو شاید ہم نہیں نبھا سکتے، یا ان کو نبھانا ہمارے بس میں نہیں، ہم تو ایک جسم میں لگے درد کو دائیں اور بائیں کے تفریق میں دیکھتے ہیں-

اس ظلم کو روکنے، اس درد کو ختم کرنے اور اس تاریکی کو مٹانے کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا، مزاحمت کرنا ہوگا، اپنے جدوجہد کو اپنانا ہوگا، اسکے بعد ہمیں بلوچ بن کر اس کا مقابلہ یکجہتی سے کرنا ہوگا تب جا کر ہم سرخرو ہوں گے –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں