جس بات کا فکر تھا، اب اسی پہ فخر ہے – بیبرگ بلوچ

352

جس بات کا فکر تھا، اب اسی پہ فخر ہے

تحریر بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

دلجان وہ ہستی ہیں جس کے بارے میں لکھوں تو ہاتھ کانپتے ہیں، دل میں ایک عجیب سا ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں سنگت کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ کردوں۔ میرے اب تک نہ لکھنے کی وجہ بھی یہی رہی ہے۔

میں بتاتا چلوں کہ روز کی طرح، اس دن بھی میں نے بنا ارادہ فیسبک آن کر دیا اسکرین پر انگلی چل رہی تھی کہ ایک تصویر سامنے آ گیا، دو چہرے سامنے آگئے ایک کو میں اپنے ہوش سنبھالنے سے جانتا ہوں، دوسرے سے رشتہ لہو کے رشتے سے بڑھ کر ہے۔ مجھے فیسبک پر سنگت ضیاء عرف دلجان و سنگت نورالحق عرف بارگ جان کے تصاویر ملے لمحہ بھر بھی نہیں لگا کہ میری آنکھیں دھوکہ کھا رہے ہیں، میں جانتا تھا سنگت جس سفر کا مسافر ہے، اس میں کامیابی تک لڑنا یا لڑ کر اپنے مقصد میں امر ہونا ہی ہے، ہمیں یہ سب ضیاء ہی نے سکھایا ہے۔

بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، میں چیخ کر رونا چاہ رہا تھا، مجھے ان سے اتنی جلدی جدا نہیں ہونا تھا۔ میں پھر سے فیسبک پر متوجہ ہوا اور دی بلوچستان پوسٹ پر جاکر دیکھا جہاں لکھا ہوا تھا کہ “دلجان و بارگ جان نے تراسانی کے میدان پر دشمن سے لڑتے ہوئے گولیاں ختم ہونے کی صورت میں تنظیمی رازوں کو دشمن سے بچانے کی خاطر آخری گولی خود پر چلا کر فنا ہو چلے۔”

تب تک ایک بات میرے زندگی کا حوصلہ رہا کہ سنگت نے لاکھ منانے پر کئی مراعات کےعوض اور آج موت کے سامنے بھی اپنے مقصد اپنے نظریات پر ڈٹے رہے. اکثر فکر لاحق تھا کہ کہیں دلجان کو ہم کھو نہ دیں، مگر اس دن وہی ہوا تھا، ہم نے دلجان سے کتنا کچھ سیکھا، وہ دریا سے ایک قطرہ اٹھانے کے برابر رہا، وہ جیتا تو اور چلتا اور سمجھاتا اور مدد کرتا اور سنگت بناتا۔ کل تک اسکے بچھڑنے کا ڈر تھا، آج اسکے بچھڑ نے پر فخر ہے کہ جاتے جاتے دلجان وہ کچھ سکھا کر چلا گیا جو علاقے میں کئی نسلوں کی داستانوں میں نہیں ملتے۔

آخری بار دلجان سے اسکے شہادت کے دو مہنے پہلے ملاقات ہوئی، ہم اسکے بتائے ہوئے ایک جگہ پر درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، جب وہ آئے تو اسکے کمر پر ایک پسٹل بندھا ہوا تھا. میں نے اس سے سوال کہا کہ “آپ بڑے بندوق نہیں رکھتے؟”
تو وہ ہنس کر کہنے لگا “اسی ایک پسٹل سے دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔”

یہ باتیں میری سمجھ سے بالاتر تھیں، کہ ایک شخص کس قدر وطن کے عشق میں مگن رہ کر موت کو بھی مسکرا کر بیان کر رہا ہے، میں اسی سوچ میں تھا تو دلجان نے مسکراتے ہوئے پوچھا “کیا ہوا؟ کس سوچ میں گم ہوگئے؟”
میں نے اس سے کہا کہ “آپ نے ایسی بات کر دیی کہ مجھے ڈر سا لگ گیا۔”

اس دن ہم قریباً پانچ گھنٹے دلجان کے محفل میں رہے، وہ مجھے اکثر کہتا تھا، “آپ پڑھو اپنے پڑھائی پر دھیان دو آپ لوگوں پر بڑی زمہ داری ڈالونگا۔’
میں دلجان سے کہتا تھا آپ جیسے کو ہماری کیا ضرورت بلکہ ہمیں آپ کے رہنمائی کی ضرورت رہے گی۔
میں دلجان کو تنظیمی و ذاتی دونوں حوالے سے ایک استاد مانتا ہوں، اس نے ہمیشہ زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی کی ہے۔ اس نے ہمیشہ سمجھایا ہے کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے. اس نے ہمیں ایک مقصد سے آگاہ کیا اس نے ہمیں وطن کی محبت سکھایا اس نے ہمیں اپنوں اور دشمنوں کا فرق بتایا، اس نے ہمیں لوگوں کی خاطر جینا اور ہمیشہ زندہ رہنے کا ہنر سکھایا۔ اس نے جاتے جاتے یہ بھی سکھایا کہ “اپنے ذمے کے کام پر اس حد تک ڈٹے رہو، جب تک کہ پہاڑ نہیں ٹوٹتا یا پھر سر” مگر اپنے حق اپنے زمہ کے کام سے کبھی دستبردار نہ ہونا۔

ضیا مجھے فخر ہے آپ نے ایماندارانہ فیصلہ کرکے سنگت نورالحق و باقی سنگتوں کے ساتھ کام شروع کیا، آپ کے و بارگ جان کے ایمانداری کا مثال ہی یہی ہے کہ اس آخری گولی کا مشترکہ فیصلہ دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
آپ دونوں سنگتوں نے گران بار باقی سنگتوں کے کاندھوں پر چھوڑ کر چلے گئے ہو، اس بات کا سوچ کر حوصلہ بلند ہوتا ہے کہ آپ نے جانے کے بعد اور کئی دلجان و بارگ جان کو مادر وطن کی حفاظت پر معمور کرکے خود آرام کر رہے ہونگے۔